۴۵۰؍کلومیٹرطے کرکے بھیونڈی پہنچے تھے۔ تھانے پہنچنے پر ایک کسان کی طبیعت بگڑنے پراسپتال داخل کرایا گیا
EPAPER
Updated: July 16, 2025, 12:07 AM IST | Mumbai
۴۵۰؍کلومیٹرطے کرکے بھیونڈی پہنچے تھے۔ تھانے پہنچنے پر ایک کسان کی طبیعت بگڑنے پراسپتال داخل کرایا گیا
اگر ایک وائرل ویڈیو سے ایک کسان کو انصاف مل سکتا ہے تو باقی لاکھوں کسانوں کی فریاد کب سنی جائے گی؟ — یہ سوال ہے لاتور ضلع کے ۲؍ کسانوں کا، جنہوں نے قرض معافی کے مطالبے کے تعلق سے کندھے پر ہل رکھ کر منترالیہ (ممبئی) تک پیدل مارچ شروع کیا ہے۔ تقریباً ۵۰۰؍کلومیٹر طویل اس سفر میں وہ ۴۵۰؍کلومیٹر طے کرکے بھیونڈی پہنچے مگر تھانے میں پہنچتے ہی ایک کسان کی طبیعت بگڑ گئی اور اُسے اسپتال میں داخل کرانا پڑا۔
یہ تحریک احمدپور تعلقہ کے دھانورا بُدرک گاؤں کے کسان سہدیو ہوڑالے نے اُس وقت شروع کی جب ایک ضعیف کسان کی بیوی کے ساتھ کھیت میں ہل چلاتی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ ویڈیو کے منظر عام آنے پر حکومت نے فوری طور پر قرض معافی کا اعلان کیا تھا۔ سہدیو نے سوال کیا کہ’’کیا انصاف حاصل کرنے کے لئے ہمیں بھی ایسی تکلیف دہ تصویریں دکھانی ہوں گی یا سوشل میڈیا پر ڈالنی ہوںگی؟
سہدیو نے ۴؍جولائی کو سفر شروع کیا تھا۔ کچھ دن بعد لاتور کے ہی چاکور تعلقہ کے کسان گنیش سوریہ ونشی نے اس تحریک میں شمولیت اختیار کر لی۔ دونوں کسان روزانہ کئی کلومیٹر پیدل سفر کرتے رہے۔ شدید گرمی، چھالوں سے سوجے ہوئے پیر، اور تھکن کے باوجود وہ رُکے نہیں۔ بھیونڈی میں مختصر آرام کے بعد جب وہ تھانے پہنچے تو سہدیو ہوڑالے کی طبیعت بگڑ گئی اور انہیں تھانے کے سول اسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ ان کے ساتھی گنیش نے بتایا کہ جیسے ہی سہدیو کی صحت بہتر ہوگی وہ دونوں منترالیہ جا کر ریاستی حکومت سے مطالبہ کریں گے کہ تمام کسانوں کے قرض زمین کے ریکارڈ سے مستقل طور پر ہٹائے جائیں۔
سہدیو کا کہنا ہے کہ ’’میرے اوپر ڈیڑھ لاکھ روپے کا قرض ہے، جو میں شاید کسی طرح چکا بھی دوں لیکن سوال یہ ہے کہ ریاست کے لاکھوں کسان آج بھی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کے ساتھ انصاف کون کرے گا؟‘‘ ۔انہوں نے سیاست پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومتیں ذات پات کے تنازع پیدا کرکے کسانوں کے اصل مسائل سے توجہ ہٹا رہی ہے۔ جبکہ گنیش سوریہ ونشی نے کہا کہ ’’میں مراٹھا ہوں، سہدیو او بی سی لیکن ہم دونوں سب سے پہلے کسان ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ کسانوں کی آواز اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے۔یہ احتجاج صرف ۲؍ کسانوں کا سفر نہیں — یہ پورے ریاست لہ کسان طبقے کی طرف سے ایک پُرامن مگر پُراثر سوال ہے۔کیا کسان کو تب ہی سنا جائے گا، جب وہ کندھے پر ہل لاد کر سڑک پر اُترے گا؟