Inquilab Logo Happiest Places to Work

غیرقانونی تعمیرات کی جانچ ایس آئی ٹی سے ہوگی

Updated: March 20, 2025, 9:23 AM IST | Iqbal Ansari | Mumbai

قانون ساز کونسل میں کابینی وزیر ادے سامنت کا اعلان، جانچ میں ملوث پائے جانے والے میونسپل افسران کیخلاف بھی کارروائی کا انتباہ

State Industries Minister Uday Samant speaking.
ریاست کے وزیر صنعت ادے سامنت خطاب کرتےہوئے۔

مہاراشٹر حکومت ممبئی میونسپل کارپوریشن( بی ایم سی) کی حدود میں غیر قانونی تعمیرات کے بڑھتے ہوئے معاملے کی تحقیقات کےلئے سبکدوش جج کی قیادت میں ایک کمیٹی قائم کرے گی۔ ریاست کے وزیر صنعت ادے سامنت نے منگل کو قانون ساز کونسل کو بتایا۔ انہوں نے کہا کہ ذمہ دار پائے جانے والے اہلکاروں کو کمیٹی کے نتائج کی بنیاد پر فوری کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
 یہ معاملہ ممبئی میں مقیم قانون ساز کونسل کے اراکین نے اٹھایا تھا جنہوں نے لینڈ مافیا کے ذریعہ سرکاری اور نجی دونوں زمینوں پر بڑے پیمانے پر غیر قانونی تعمیرات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔شیوسینا (ادھو بالا صاحب ٹھاکرے) پارٹی کے قانون ساز کونسل کے رکن (ایم ایل سی) سچن اہیر نے غیر قانونی تعمیرات پر روشنی ڈالی کہ مقامی شہریوں اور عوامی نمائندوں کی متعدد شکایات کے باوجود برہن ممبئی میونسپل کارپوریشن(بی ایم سی) ٹھوس کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔
 انہوںنے مزید کہاکہ’’زمین مافیا کی طرف سے ممبئی کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر غیر قانونی تعمیرات کی جارہی ہیں۔ شہریوں نے بار بار بی ایم سی سے شکایات کی لیکن اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔‘‘
 سچن اہیر( جو وزیر ہاؤسنگ بھی رہ چکے ہیں) نے الزام لگایا کہ میونسپل کمشنرز، زونل ڈپٹی کمشنرز، نامزد افسران، وارڈ افسران اور ایگزیکٹیو انجینئرز نے غیر قانونی تعمیرات کو نظر انداز کیا ہے، کچھ افسران مبینہ طور پر اس طرح کی سرگرمیوں میں تعاون بھی کررہے ہیں۔
 اہیر نے مطالبہ کیا کہ ریاستی حکومت احتساب کو یقینی بنانے کے لئے خصوصی تفتیشی ٹیم(ایس آئی ٹی) یا سبکدوش ججوں کی ایک کمیٹی کے ذریعے تفتیش کرے۔ 
 ان مطالبات کا جواب دیتے ہوئے ادے سامنت نے کونسل کو یقین دلایا کہ ایک ریٹائرڈ جج کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو اس معاملے کی مکمل تفتیش کرے گی۔کمیٹی کی تفصیلات ، اس کا دائرہ کار اور مینڈیٹ کو جلد ہی شیئر کیا جائے گا۔‘‘
 متعدد اپوزیشن ایم ایل سی نے مخصوص علاقوں پر تشویش کا اظہار کیا جہاں غیر قانونی تعمیرات عروج پر ہیں۔ ان میں میونسپل وارڈ: ڈی (گرانٹ روڈ)، ای(بائیکلہ)، جی/ساؤتھ (ایلفنسٹن روڈ)، ایچ/ویسٹ(باندرہ۔ ویسٹ) ، کے/ویسٹ (اندھیری  ویسٹ)، پی/نارتھ(ملاڈ)، پی/ساؤتھ (گوریگاؤں)، اور ایل(کرلا) وارڈ شامل ہیں جہاں واقع سرکاری اور نجی املاک دونوں پر بڑے پیمانے پر غیر قانونی تعمیرات دیکھی گئی ہیں۔
  اپوزیشن کے اراکین نے الزام لگایا کہ بی ایم سی نے مزید کارروائی  کئےبغیر ان غیر قانونی ڈھانچوں کے خلاف صرف نوٹس جاری کئےہیں۔ انہوں نے بی ایم سی کے کچھ بدعنوان اہلکاروں پر ان تعمیرات کی حفاظت اور ان کو فعال کرنے کا الزام بھی لگایا۔
 کانگریس کے ایم ایل سی بھائی جگتاپ نے بی ایم سی کی غیرفعالیت پر سوال اٹھایا اور نشاندہی کی کہ کئی عہدیدار ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے اسی عہدے پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نوٹس جاری کرنا کافی نہیں، غیر قانونی تعمیرات کو بچانے والوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟ یہ حکومت کو بتانا چاہئے۔
 ریاستی وزیر مادھوری مشال نے اعتراف کیا کہ ابھی تک کسی بھی عہدیدار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
 شیو سینا (یو بی ٹی) لیڈر انل پرب نے مزید الزام لگایا کہ لینڈ مافیا کے ذریعہ پی/ساؤتھ اور پی/نارتھ وارڈوں میں تقریباً۱۵۰؍ ایکڑ سرکاری زمین پر قبضہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے ایسے نامزد اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جو ایسی تجاوزات کی روک تھام میں ناکام رہے۔
 اراکین کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے شہری ترقی کی وزیر مملکت مادھوری مسال نے کہا کہ ممبئی شہر میں ۷؍ ہزار ۹۵۱؍غیر قانونی تعمیرات ہیں جن میں سے ایک ہزار ۲۱۱؍ کو ہٹا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ۲؍ ہزار۱۱۵؍  مقدمات عدالت میں زیر التوا ہیں جبکہ ۱۶۹؍ مقدمات عدالت کی ہدایت کے مطابق نظر ثانی کیلئے  بھیجے گئے ہیں۔ریاستی حکومت  غیر قا نونی تعمیرات یا کسی بدعنوان افسر کی حمایت نہیں کرے گی۔ 
 انہوںنے مزید کہا کہ غیر قانونی تعمیرات کیلئے کی گئی تجاوزات کے معاملے میں متعلقہ افراد کے خلاف فوجداری مقدمات درج کئے  گئے ہیں۔ حکومت فوری ایکشن نہیں لے سکتی کیونکہ کچھ مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں لیکن اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ ان مسائل پر موثر اقدامات کئے جا سکتے ہیں یا نہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK