• Thu, 23 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سرفراز خان کی عدم شمولیت کا معاملہ پارلیمنٹ کی کھیل کمیٹی میں اٹھائیں گے: برق

Updated: October 23, 2025, 2:36 PM IST | New Delhi

ہندوستانی کرکٹر سرفراز خان کی ٹیم سے عدم شمولیت نے سیاسی و سماجی بحث چھیڑ دی ہے، جہاں بعض لیڈروں نے اسے مذہبی امتیاز سے جوڑا ہے۔ دوسری جانب بی جے پی اور سابق کھلاڑیوں نے ایسے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کرکٹ کو سیاست سے دور رکھنے کی اپیل کی ہے۔

Sarfaraz Khan and Ziaur Rehman Barq. Photo: INN
سرفراز خان اورضیاء الرحمن برق۔ تصویر: آئی این این

سرفراز خان کو کسی بھی ہندوستانی ٹیم، حتیٰ کہ انڈیا اے میں بھی منتخب نہ کئے جانے کے بعد، سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ضیا الرحمٰن برق نے کہا ہے +کہ اگر یہ طے پایا کہ سرفراز کے مذہب کی بنیاد پر فیصلہ کیا گیا تو وہ اس معاملے کو پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے کھیل میں اٹھائیں گے۔ یہ بیان اس وقت آیا ہے جب سرفراز کی عدم شمولیت پر سیاسی تنازع بڑھ گیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے، جن میں کانگریس کی قومی ترجمان شمع محمد بھی شامل ہیں، یہ الزام لگایا ہے کہ انہیں ان کے ’’خاندان کے نام‘‘ (Surname) کی وجہ سے نظرانداز کیا گیا۔ انہوں نے خبر رساں ادارے اے این آئی سے بات کرتے ہوئے کہا’’ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اگر کسی کی کارکردگی اچھی ہو تو صرف مذہب کی بنیاد پر اسے ہٹا دیا جائے، یہ ظاہر ہے کہ ہمارے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ ‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’اگر ایسا ہوا تو میں بھی پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے کھیل کا رکن ہوں، میں اس مسئلے کو وہاں اٹھانے کی کوشش کروں گا۔ ‘‘تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب تک کسی کھلاڑی کو صرف مذہب کی بنیاد پر ٹیم سے باہر نہیں کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا، ’’ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی مخصوص مذہب کے لوگوں نے ملک کا نام روشن نہ کیا ہو۔ ہر مذہب اور ذات کے لوگوں نے ہمیشہ ملک کیلئے کھیلا ہے اور فخر کا باعث بنے ہیں۔ ہماری مسلم برادری نے ہمیشہ اس میں کردار ادا کیا ہے، اور تمام مذاہب کے لوگوں نے ہمیشہ جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا ہے۔ ‘‘

سرفراز کی عدم شمولیت پر تنازع
سرفراز خان نے گزشتہ پانچ برسوں میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں ۱۱۰ء۴۷؍کی اوسط سے کھیلتے ہوئے پانچ نصف سنچریاں اور دس سنچریاں بنائیں اور ۲۵۰۰؍سے زیادہ رنز اسکور کئے ہیں۔ اس کے باوجود انہیں جنوبی افریقہ اے کے خلاف ہندوستان کی آئندہ سیریز کیلئے منتخب نہیں کیا گیا۔ بی سی سی آئی نے جب دو چار روزہ میچز (جو بنگلورو میں ہوں گے) کیلئے اسکواڈ کا اعلان کیا، تو اس کے اگلے دن شمع محمد نے ایکس پر لکھا:’’کیا سرفراز خان کو ان کے سرنیم کی وجہ سے منتخب نہیں کیا گیا؟‘‘‘انہوں نے ہیش ٹیگ “#JustAsking” کے ساتھ یہ بھی کہا، ’’ہم جانتے ہیں کہ اس معاملے میں گوتم گمبھیر کا مؤقف کیا ہے۔ ‘‘
سرفراز نے آخری بارہندوستان کی جانب سے نومبر۲۰۲۴ءمیں نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں کھیلا تھا۔ انہوں نے اپنا ٹیسٹ ڈیبیو فروری پچھلے سال انگلینڈ کے خلاف روہت شرما کی قیادت میں کیا تھا۔ 

شمع محمد اکیلی نہیں ہیں جو بی سی سی آئی کے فیصلے پر سوال اٹھا رہی ہیں، کیونکہ سرفراز نے فٹنس بہتر کی ہے اور گھریلو سطح پر مسلسل شاندار کارکردگی دکھائی ہے۔ سابق ہندوستانی کرکٹر روی چندرن اشون نے بھی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سرفرازکیلئے’بہت دکھ‘ ہے اور لگتا ہے کہ ان کیلئے’دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔ ‘‘انہوں نے اپنے یوٹیوب چینل’’اش کی بات‘‘پر کہا، میں سرفراز خان کی عدم شمولیت کا جواب نہیں ڈھونڈ پا رہا۔ مجھے ان کیلئے بہت افسوس ہے۔ انہوں نے وزن کم کیا، رنز بنائے۔ مجھے واقعی افسوس ہے۔ ‘‘ انہوں نے زور دے کر کہا، ’’ایسی عدم شمولیت سے کھلاڑی کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید سلیکٹرز نے اسے کافی دیکھ لیا ہے اور اب نہیں چاہتے۔ اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو میں بھی یہی محسوس کرتا۔ وہ کہاں جا کر کارکردگی دکھائے؟ دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔ ‘‘
’ہندوستان کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنا بند کریں : بی جے پی کا ردعمل
بی جے پی کے قومی ترجمان شہزاد پوناوالا نے شمع محمد کے’’سرنیم‘‘ والے تبصرے پر سخت ردعمل دیا اور اس بات کی نشاندہی کی کہ اسی ٹیم میں دو مسلم کھلاڑی محمد سراج اور خلیل احمد بھی کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے ایکس پر لکھا، ’’یہ خاتون اور ان کی پارٹی بیمار ہیں۔ روہت شرما کو موٹا کہنے کے بعد اب وہ اور ان کی پارٹی ہماری کرکٹ ٹیم کو بھی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں ؟ دیش کا پارٹیشن کر کے بھی دل نہیں بھرا کیا؟‘‘انہوں نے مزید کہا، ’’اسی ٹیم میں محمد سراج اور خلیل احمد کھیل رہے ہیں !ہندوستان کو مذہبی اور ذات پات کی بنیادوں پر تقسیم کرنا بند کریں۔ ‘‘ایک اور پوسٹ میں انہوں نے شمع محمد کو مشورہ دیا کہ وہ اپنا’’گندا سیاسی و فرقہ وارانہ ایجنڈا کرکٹ سے دور رکھیں۔ ‘‘
سابق ہندوستانی کرکٹر اتل واسن نے بھی شمع محمد کے بیان پر تنقید کی اور کہا کہ یہ ہندوستانی کرکٹ سسٹم کی توہین ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میں کرکٹ سسٹم کا حصہ رہا ہوں، ایک سابق کھلاڑی ہونے کے ناطے مجھے شرم آتی ہے کہ کسی پارٹی کی ترجمان نے ایسا کہا۔ ہمارے پڑوسی ملکوں میں دیکھیں، وہاں کھلاڑیوں کو زندہ رہنے کیلئے مذہب تبدیل کرنا پڑا۔ کسی کو عیسائیت سے اسلام میں آنا پڑا، ہندو کھلاڑیوں کو الگ کر دیا گیا۔ ملک میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اسی لئے ہم اخلاقی لحاظ سے بہتر مقام رکھتے ہیں۔ لیکن اگر سیاسی جماعتیں کھلاڑیوں کو مہرہ بنائیں گی تو یہ افسوسناک ہے۔ ‘‘انہوں نے شمع محمد کے بیان کو ’’انتہائی افسوسناک‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا، ’’جب بھی ہندوستان میں کھیلوں میں مذہب کا کارڈ کھیلا جاتا ہے، میرا دل دکھتا ہے۔ میں نے کرکٹ کھیلی ہے، ہم نے کبھی کسی کھلاڑی کو اس کے مذہب یا ذات کی بنیاد پر نہیں دیکھا۔ اصل چیز کھلاڑی کی قابلیت ہے۔ وہ بھول گئی ہیں کہ ہندوستان کو محمد اظہر الدین نے۱۲؍ سال قیادت دی ہے۔ آج بھی محمد سمیع اور محمد سراج ٹیم میں ہیں۔ ‘‘تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی ذاتی رائے میں سرفراز کو ٹیم میں ہونا چاہئےتھا۔ ’’یہ الگ بات ہے، یہ خالصتاً کرکٹ کا معاملہ ہے، جس پر بحث کی جا سکتی ہے۔ مگر اس معاملے کو مذہب کا رنگ دینا تمام کھلاڑیوں اور سسٹم کیلئے توہین آمیز ہے۔ یہ ہندوستانی کرکٹ سسٹم کی بڑی توہین ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK