Inquilab Logo Happiest Places to Work

سری نارائن منوا دھرم ٹرسٹ، وقف ترمیمی ایکٹ کو چیلنج کرنےکیلئے سپریم کورٹ سے رجوع

Updated: May 05, 2025, 9:59 PM IST | New Delhi

کیرالہ کے سری نارائن منوا دھرم ٹرسٹ، وقف ترمیمی ایکٹ کو چیلنج کرنےکیلئے سپریم کورٹ سے رجوع ، کہا اس قانون سے ہندوستان میں مسلم کمیونٹی کی بقا کو خطرہ ہے۔

Supreme Court. Photo: INN
سپریم کورٹ۔ تصویر: آئی این این

کیرالہ کی سری نارائن تنظیم، سری نارائن منوا دھرم ٹرسٹ نے وقف (ترمیمی) ایکٹ ۲۰۲۵ء کو چیلنج کرنے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ تنظیم نے دلیل دی ہے کہ اس قانون سے ہندوستان میں مسلم کمیونٹی کی بقا کو خطرہ ہے۔ اس نے کہا کہ ’’ٹرسٹ اس تباہ کن اثرات کا ایک غیر فعال مبصر نہیں رہ سکتا ہے جو غیر قانونی ایکٹ، پوری طرح سے، ہندوستان میں مسلم کمیونٹی اور ہمارے ملک میں سماجی انصاف کے وسیع تر مقصد کیلئے لاحق ہے۔‘‘ سری نارائن منوا دھرم ٹرسٹ جو ۲۰۲۳ء میں فلسفی بابا سری نارائن گرو کی تعلیمات اور اقدار کو فروغ دینے کیلئے قائم کیا گیا تھا، نے ترمیم شدہ وقف ایکٹ کی دفعات کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کے جاری بیچ میں مداخلت کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: گوتم اڈانی کی ٹیم کی رشوت مقدمات کو خارج کرنے کیلئے ٹرمپ انتظامیہ سے ملاقات : رپورٹ

تمام برادریوں کے باہمی ربط اور معاشرے کی اجتماعی بہبود پر گرو کے زور کا حوالہ دیتے ہوئے، ٹرسٹ نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ’’تمام افراد اور برادریوں کی فلاح و بہبود کی ایک دوسرے پر منحصر نوعیت کے بارے میں سری نارائن گرو کی تعلیم کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ خاص طور پر اس دوران جب ملک کی تمام کمیونٹیز ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہ پورے ہندوستان کی مسلم کمیونٹی اور ہمارے ملک میں سماجی انصاف پر حملہ ہے۔‘‘ خیال رہے کہ چونکہ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں نئی درخواستیں داخل کرنے پر روک لگا دی ہے، اس کے بجائے قانون کو چیلنج کرنے کے خواہشمندوں کو مداخلت کی درخواستیں دائر کرنے کی ہدایت دی ہے، سری نارائن منوا دھرم ٹرسٹ نے مداخلت کی درخواست داخل کی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’’ممنوعہ ایکٹ واضح طور پر لیکن غلطی سے وقف کے طریقہ کار کو ایک غیر مذہبی ادارے کے طور پر پیش کرتا ہے، اس طرح اسلامی قانون کی باڈی کو مکمل طور پر وقف کے بنیادی گورننگ قانون کے طور پر حذف کر دیا گیا ہے، اور اسلامی قانون کو اس قانون سے تبدیل کر دیا گیا ہے جو متعین کردہ ایکٹ کے ذریعہ وضع کیا گیا ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: ’’ہم امریکہ کے سامنے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے مذاکرات کر رہے ہیں‘‘ : مسعود پزشکیان

ایڈوکیٹ ڈاکٹر موہن گوپال، جو ٹرسٹ کے چیئرمین بھی ہیں، سپریم کورٹ میں ٹرسٹ کی نمائندگی کریں گے۔ موہن گوپال، ایک تجربہ کار سماجی انصاف کے کارکن، سپریم کورٹ آف انڈیا کی نیشنل جوڈیشل اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر اور نیشنل لاء اسکول آف انڈیا، بنگلور کے سابق ڈائریکٹر (وائس چانسلر) بھی ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ یہ مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ مکتوب میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ قانون مسلمانوں کی طرف سے دیئے گئے خیراتی عطیات کو کنٹرول کرنے کیلئے ملک کی پوری مسلم کمیونٹی پر ’’ایک غیر آئینی، سوئی جنری، ریاست کی طرف سے وضع کردہ اور ریاست کی طرف سے مسلط کردہ اسکیم‘‘ نافذ کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ممنوعہ ایکٹ انتہائی غلط ہے کیونکہ پارلیمنٹ کے پاس عوام کے کسی بھی طبقے پر اس طرح کی اسکیم مسلط کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے اور اس وجہ سے یہ آئین کے ساتھ دھوکہ ہے۔ یہ ملک کی طرف سے مسلط کردہ اسکیم آرٹیکل ۲۱، ۲۵، ۲۶؍ اور ۲۹؍ کے تحت مسلم کمیونٹی کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہے۔‘‘ درخواست میں یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ وقف کے طریقہ کار پر سرکاری قبضے کے نتیجے میں مسلم کمیونٹی کو اپنے مذہب پر عمل کو برقرار رکھنے کیلئے معاشی اور مالی وسائل کے بغیر چھوڑ دیا جائے گا۔

  1. یہ بھی پڑھئے: غزہ میں مزید ۴۵؍ شہید، خوراک کا ذخیرہ ختم ، حالات ابتر

درخواست میں کہا گیا ہے، ’’اس طرح سے غیر قانونی ایکٹ ہندوستان میں مسلم کمیونٹی کے وجود کو خطرہ بناتا ہے، جس کا انحصار وقف کے طریقہ کار پر ہے۔ وقف کا نظام صدیوں سے چلا آرہا ہے، اور جاری رہے گا، ہندوستان میں اسلام کے نفاذ اور بقا کیلئے ضروری اقتصادی اور مالی وسائل کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔‘‘ عرضی میں کہا گیا ہے کہ ’’غیر قانونی قانون مسلم کمیونٹی کی اقتصادی اور مالی بنیادوں کو ختم کردے گا۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK