Inquilab Logo

ایرنڈول جامع مسجد کی چابیاں جمع کروانے کے حکم پر اسٹے

Updated: April 10, 2024, 11:54 PM IST | Nadeem Asran | Mumbai

چابیوں کو مسجدٹرسٹ ہی کے پاس رکھنے کی سپریم کورٹ کی ہدایت، وقف بورڈ کے نام نوٹس ، اپنا موقف واضح کرنے کا حکم، ہندوتواوادی تنظیم کی مداخلت پر بھی اعتراض

Local Muslims breathed a sigh of relief after the court`s decision (file photo).
عدالت کے فیصلے کے بعد مقامی مسلمانوں نے راحت کا سانس لیا ( فائل فوٹو)

جلگائوں ضلع کے ایرنڈول تعلقے میں واقع تاریخی  جامع مسجد   کے تعلق سے مسجد ٹرسٹ کو سپریم کورٹ کی جانب سے بڑی راحت ملی ہے۔ عدالت نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر  اسٹے دیدیا ہے جس میں مسجد ٹرسٹ کو مسجد کی چابیاں  شہری انتظامیہ کے حوالے کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔  یاد رہے کہ ایرنڈول تعلقے میں واقع  تاریخی مسجد کئی سو سال پرانی ہے لیکن  مقامی ہندوتوا تنظیم اس مسجد کو ’پانڈ واڑہ‘ کہہ کر اس پر اپنا حق جتاتی ہے اور اس تعلق سے مسلسل شرانگیزی کی کوششیں ہو رہی ہیں۔  
  یہ معاملہ بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ میں زیر سماعت تھا جس پر گزشتہ ۴؍ اپریل کو عدالت نے فیصلہ سنایا اور ہدایت دی کہ مسجد انتظامیہ مسجد کے صدر دروازے کی چابیاں انتظامیہ کے حوالے کردے۔ حالانکہ مسجد میں نماز پر کسی طرح کی پابندی نہیں لگائی گئی تھی۔ لیکن مسجد ٹرسٹ نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میںاپیل داخل کی تھی ۔مسجد انتظامیہ چاہتا تھا کہ چابیاں اسی کے پاس رہیں تاکہ کسی کو شرانگیزی کا موقع نہ ملے۔   بدھ کو اس ضمن میں سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی  جسکے دوران عدالت نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد مسجد ٹرسٹ کو یہ کہتے ہوئے  راحت دی کہ اسے مسجد کی چابیاں شہری انتظامیہ کے حوالے کرنے کی ضرورت نہیں ہے  ۔
  سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ کے جسٹس سوریہ کانت اور وشواناتھن  کے سامنے ایڈوکیٹ ایس ایس قاضی نے مسجد ٹرسٹ کی پیروی کی ۔  ہندوتوا وادی تنظیم پانڈوواڑہ  سنگھرش سمیتی  نے ایرنڈول کے سٹی سروے نمبر ۱۱۱ ؍ کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ  غیر قانونی طور سے زمین پر قبضہ کرکے جامع مسجد و مدرسہ بنایا گیا ہے۔ساتھ ہی اس  زمین کوپانڈوواڑہ کی ملکیت بتانے کی کوشش کی ۔سپریم کورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد  نوٹس جاری کیا ۔ نو ٹس میں  سپریم کورٹ نے خصوصی طور پر وقف بورڈ کو اس معاملہ میں مداخلت کرتے ہوئے اپنا موقف واضح کرنے کی ہدایت دی ہے ۔
   مقدمے کی تفصیل فراہم کرتے ہوئے ایس ایس قاضی نے بتایا کہ دوران سماعت عدالت عالیہ کو بتایا گیا کہ ’’ایرنڈول کی جامع مسجد نہ صرف یہ کہ صدیوں پرانی ہے بلکہ یہاں باقاعدمعمول کے مطابق نماز ادا کی جاتی ہےلیکن شواہد پیش کرنے کے باوجود بامبے ہائی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے چابی ٹرسٹ کے حوالہ کرنے کا حکم دیا تھا کہ چابی دینے اور واپس لینے کے تعلق سے دو ماہ کی  طے شدہ معیاد ختم ہوگئی ہے اسلئے چابی کلکٹر کو حوالہ کر دی جانی چاہئے ۔‘‘ کورٹ کو یہ بھی بتایا گیا کہ اس معاملہ میں ہائی کورٹ نے ہماری بات کو اہمیت نہیں دی جس کی وجہ سے سپریم کورٹ کا رخ کرنا پڑا۔
  بعد ازیں سپریم کورٹ نے نوٹس جاری کیا کہ ٹرسٹ کو فی الحال  چابی انتظامیہ کے حوالے کرنے کی کوئی  ضرورت نہیں ہے۔البتہ عدالت نے تمام فریقوں کو  اس ضمن میں جواب داخل کرنے کاحکم دیا  اور خصوصی طور پر وقف بورڈ کو  اپنا موقف واضح کرنے کی ہدایت دی ہے ۔ساتھ ہی عدالت عالیہ نے  ہندوتوا وادی تنظیم پانڈوواڑہ سنگھرش سمیتی کے اس معاملہ میں مداخلت کرنے پر بھی اعتراض ظاہر کیا ہے ۔
 یاد رہے کہ مذکور ہ ایرنڈول جامع مسجد پر اپنا دعویٰ کرنے والی تنظیم کو اس سے قبل اس وقت  بھی منہ کی کھانی پڑی تھی جب بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ نے کلکٹر کی جانب سے جامع مسجد پر عام مسلمانوںکے داخلے پر پابندی اور صرف دو مصلیان کو نماز پڑھنے کی اجازت دینے کے حکم  دیا تھا۔  عدالت نے اسے مسترد کرتے ہوئے  معمول کے مطابق نماز ادا کرنے کی اجازت دی تھی ۔ اس وقت ضلع کلکٹر نے مسجد کی چابیاں مسجد ٹرسٹ کو واپس کر دی تھیں۔  یہ گزشتہ سال کا واقعہ  ہے ۔ ۴؍ اپریل  ۲۰۲۴ء کو جب ہائیکورٹ نے حتمی فیصلہ سنایا تو ہدایت دی کہ چابیاں میونسپل کمشنر کے حوالے کر دی جائیں لیکن مسجد میں نماز پر کسی طرح کی کوئی پابندی نہیں لگائی۔   اب جبکہ  سپریم کورٹ نے مسجد ٹرسٹ کی عرضداشت پر سماعت کرتے ہوئے ہائیکورٹ کے اس فیصلے پر بھی روک لگادی ہے ، مسجد انتظامیہ اور مقامی مسلمانوں کو بڑی راحت ملی ہے۔  یاد رہے کہ ایرنڈول کی جامع مسجد پر شرپسندوں کی کافی پہلے سے نظر ہے اور ۱۹۹۵ء  میں فساد کے دوران اسے نقصان پہنچانے کی بھی کوشش کی گئی تھی۔ 

jalgaon Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK