• Sat, 13 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مساجد سے لاؤڈاسپیکر اُتروانے پرشدید برہمی ،ٹرسٹیان نےصریح زیادتی قرار دیا

Updated: June 03, 2025, 10:46 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

سنّی بڑی مسجد مدن پورہ میںٹرسٹیان کی سیاسی لیڈران کے ہمراہ میٹنگ ، ۱۱؍رکنی کمیٹی بنانے پراتفاق ۔ساکی ناکہ میںتحفظ ِمساجد کنونشن کاانعقاد کیاگیا

Trustees of various mosques and political leaders can be seen at a meeting held at the Sunni Big Mosque, Madanpura.
سنی بڑی مسجد، مدنپورہ میں منعقدہ میٹنگ میں مختلف مساجد کے ٹرسٹیان اور سیاسی لیڈران دیکھے جاسکتے ہیں۔(تصویر:انقلاب)

مساجد سے لاؤڈاسپیکر اتروانے کے جاری سلسلے پر شدید برہمی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ٹرسٹیانِ مساجد اسے کھلی زیادتی قرار دے رہے ہیں۔شہر اورمضافات کے الگ الگ علاقوں میں یہی صورتحال ہے۔ اس تعلق سے سنّی بڑی مسجد مدن پورہ میںٹرسٹیان کی سیاسی لیڈران کے ہمراہ تفصیلی میٹنگ ہوئی۔جس میں ناگپاڑہ، آگری پاڑہ، بائیکلہ، مدن پورہ، مجگاؤں، مومن پورہ اور سات راستہ وغیرہ کی مختلف مسالک کی مساجد کے ٹرسٹیان نے شرکت کی اور ۱۱؍رکنی کمیٹی بنانے پراتفاق کیا گیا جس میں۶؍ مسلم سیاسی لیڈران اور اراکین اسمبلی کے علاوہ ۵؍ائمہ اور علماء ہوں گے۔ٹرسٹیانِ  مساجد اورہر مسجد سے ۲۵؍مصلیان بھی ان سے رابطے میں ہوں گے۔
 اسی مسئلے پر اجمیری ہال ساکی ناکہ میں کانگریس کی جانب سے منگل کو بعد نماز ظہر سے ’تحفظِ ِمساجد کنونشن ‘کا انعقاد کیاگیا۔ اس میں سب سے اہم سوال یہ کیا گیا کہ قانون سب کے لئے یکساں توہے مگر نشانہ صرف مساجد کیوںہیں؟  ٹرسٹیان نے کئی طرح کے مسائل بتائے
 سنّی بڑی مسجد میںہونےوالی میٹنگ کے دوران ٹرسٹیان نےپولیس کی زیادتی کی نشاندہی کی اور بتایا کہ سختی کے ساتھ لاؤڈ اسپیکر اتروائے جارہے ہیںحالانکہ آواز کی سطح کے تعلق سے عدالت نے ہدایت دی ہے مگر پولیس اہلکار کچھ سننے کےلئے تیار نہیں ۔بعض ٹرسٹیان نےیہ بھی کہاکہ ہم نے پولیس والوں سے کہا کہ ہم نے لاؤڈاسپیکرکا تار کاٹ دیا ہے لیکن پولیس والے لاؤڈاسپیکر اتروانے کی ضد کرتے ہیں۔پولیس کی جانب سے نوٹس بھیج کرسختی کے ساتھ نوٹس میں درج چھوٹے اسپیکر لگانے کی ہدایت دی جارہی ہے ، بصورت دیگرمزیدسختی  اورجرمانہ عائد کرنے کیساتھ قانونی کارروائی کا انتباہ بھی دیاجارہا ہے۔
پولیس کاجواب :ہمیںاوپر سے آدیش ہے
  مائیک اتارنے پربعض ٹرسٹیان کا کہنا تھا کہ پولیس والوں سے بحث کیجئے تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ’’ ہمیںاوپر سے آدیش ہے‘‘۔جب پولیس والو ں سےیہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ آخر ’’وہ اوپر سے آدیش دینے والا کون ہےیا کس کاآدیش ہے ‘‘تووہ کچھ بتانے کےلئے تیارنہیں۔ اس لئے اب یہ کوشش کیجئے کہ جب یہ صورتحال پیش آئے تومائیک اتارنے کا پنچ نامہ کیجئے ۔
اس مسئلے پرسیاسی لیڈران نے کیا کہا 
 ٹرسٹیان اورذمہ دارا شخاص کی جانب سے یہ کہا گیا کہ یہ بہت سنگین مسئلہ ہے اوراس سے امن وامان کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے اسلئےسیاسی لیڈران مل جل کرکام کریں۔زیادہ بہتر ہوگا کہ وہ اپنی جماعت کا وفد پولیس کمشنر یا وزیراعلیٰ کے پاس لے جانے کے بجائے مشترکہ وفد لے جائیں تاکہ اس کا وزن زیادہ ہو۔ اس میٹنگ میںرکن اسمبلی امین پٹیل نے کہاکہ ’’ کوشش کی جارہی ہے کہ یہ مسئلہ حل ہو اور مذہبی معاملے میں مداخلت کرنے والوں کو روکا جاسکے۔‘‘ایڈوکیٹ یوسف ابراہانی نےکہاکہ ’’ سماج وادی پارٹی کی جانب سے عدالت کادروازہ کھٹکھٹانے کی تیاری کرلی گئی ہے۔‘‘  رکن اسمبلی ابوعاصم اعظمی نے کہاکہ ’’ اس تعلق سے ہر سطح پرآوازبلند کی جارہی ہے تاکہ مسئلہ حل ہواور جولوگ ماحول خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘‘ رکن اسمبلی رئیس شیخ نے کہا کہ ’’ ہم لوگوںنے وزیراعلیٰ سے ملاقات کی ،انہوں نے مثبت یقین دہانی کروائی ہے۔‘‘ اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین نسیم صدیقی نے کہاکہ ’’ عدالت سے رجوع ہونے کےبجائے میرے خیال میں سیاسی دباؤ ڈلواکر اس مسئلے کوحل کرنے کی کوشش زیادہ مفید ہوسکتی ہے ۔‘‘ میٹنگ میں مولانا امان اللہ رضا، مولانا محمداسلم ، ایڈوکیٹ مبین سولکر اور امین سولکر ،مبین قریشی ،عمر لکڑا والا، محمد شمیم ، امین سولکر، خالد شیخ ، اقبال انصاری اور دیگر نے بھی اظہار خیال کیا۔
عدالتی فیصلے کا نفاذ یکساں طریقے سے ہو 
 تحفّظ مساجد کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رکن پارلیمنٹ ورشا گائیکواڑ نے کہا کہ ’’افسوسناک بات یہ ہے کہ ہر معاملے کو مذہب سے جوڑا جا رہا ہے، یہ سماج کو تقسیم کرنے کی خطرناک کوشش ہے۔ مسلمان اس ملک کے برابر کے شہری ہیں، انہیں اپنے دینی فرائض انجام دینے کا مکمل آئینی حق حاصل ہے۔ اگر کوئی عدالتی فیصلہ ہے تو وہ سب پر یکساں نافذ ہونا چاہئے۔‘‘رکن اسمبلی اسلم شیخ نے کہاکہ ’’اس مسئلے پر ہم لوگوں نے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی ۔اسی طرح ہائی کورٹ کے حکم پر ہمیشہ عمل کیا گیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ صرف مساجد کو نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟ اگر قانون سب کے لئے ہے تو پھر سبھی مذہبی اداروں میں یکساں عمل ہونا چاہئے۔‘‘ امین پٹیل نے کہا کہ ’’ موجودہ حالات میں آئینی برابری اور سماجی ہم آہنگی کا تحفظ ہر ذمہ دار سیاسی و انتظامی ادارے کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ یہ وقت سیاست کا نہیں اعتماد بحال کرنے کا ہے۔‘‘ اخیر میں کانفرنس کے منتظم اور اجمیری مدرسہ و مسجد دارالعلوم علی حسن اہلسنت کے سربراہ ابوالحسن خان نے علمائے کرام ، ائمہ اورٹرسٹیان کی موجودگی پر اطمینان کا اظہار کیا ۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ’’ہم سب ایک ہیں اور ہر مسئلے کو قانونی دائرہ میںپرامن طریقے سے حل کرنے کے پابند ہیں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK