دلائل دینے کا سلسلہ جاری ،سماعت ۶؍ نومبر تک ملتوی کردی گئی ،سینئر وکلاء نے ٹرائل کے بغیر۵؍ سال تک جیل میں رکھنے کا معاملہ اٹھایا
EPAPER
Updated: November 04, 2025, 10:36 AM IST | New Delhi
دلائل دینے کا سلسلہ جاری ،سماعت ۶؍ نومبر تک ملتوی کردی گئی ،سینئر وکلاء نے ٹرائل کے بغیر۵؍ سال تک جیل میں رکھنے کا معاملہ اٹھایا
سپریم کورٹ میں عمر خالد ،شرجیل امام اور ان کے ساتھیوں کی ضمانت عرضی پر پیر کو بھی زوردار بحث ہوئی جس میں عرضی گزاروں کی طرف سے سینئر وکلاء نے ٹرائل کے بغیر پانچ سال سے زیادہ عرصہ تک جیل میں رکھنے پر اور عرضی گزاروں کے خلاف مقدمات کے کمزور نوعیت کی طرف عدالت کی توجہ مبذول کرائی۔ سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل عمر خالد ،سلمان خورشید شفاءالرحمان اور سدارتھ اگروال نے میران حیدر کی طرف سے دلائل پیش کئے اوردہلی فسادات کی سازش کے الزام میں قید ان افراد کی ضمانت کی پرزور اپیل کی۔
کپل سبل نے عمر خالد کے خلاف مقدمہ کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مؤکل کا ۷۵۱؍ایف آئی آر میں سے صرف ایک میں نام ہے لیکن اس میںانہیں بری کیا جاچکاہے۔سازش کا مقدمہ بھی ہے لیکن اس میں عمر خالد کا نام نہیں۔ پھر آخر کس بنیاد پر ان کے خلاف یو اے پی اے عائد کیا گیا۔ سینئر ایڈوکیٹ سلمان خورشید نے شفاء الرحمان کی طرف سے دلائل دیتے ہوئے ویتنام کی جنگ اور شکاگو۷؍ٹرائل کا حوالہ دیا۔ انہوںنے کہا کہ بنیادی طور پر کسی کو اس بات پر اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی قانون ہے جس سے آپ متفق نہیں ہیں تو آپ کو احتجاج کرنے کا حق ہے۔ انہوںنے سوال کیا کہ اگر کوئی پرامن احتجاج کر رہا ہے تو اسے ایک بڑے بھیانک جرم میں تبدیل کرنے کی لکیرآخر کہاں کھینچی جائے؟
سلمان خورشیدنے کہا کہ جامعہ کی سابق طلبہ ایسوسی ایشن کے سربراہ کے طور پر شفاء الرحمان کے بارے میں کسی نے نہیں کہا کہ وہ تشدد میں ملوث تھے۔انہیں چن کر ملزم بنایاگیا۔ان کے خلاف یواے پی اے ایکٹ کے تحت بھی الزام میں کچھ نہیں کہا گیا۔اگر سبھی الزامات درست بھی تسلیم کرلئے جائیں تو بھی شفاء الرحمان نے ایسا کچھ نہیں کیا جس کی وجہ سے ان کے ٹرائل میں تاخیر ہو
سلمان خورشید نے کہا کہ جب ڈی پی ایس جی بنی تو وہ اس گروپ کا رکن نہیں تھے۔ وہ احتجاج میں حصہ لینے والے لوگوں کی حمایت کے لیے میٹنگوں میں شامل تھے لیکن کسی نے یہ نہیں کہا کہ انہوںنے کسی غیر قانونی طریقہ کار کی حمایت کی۔سینئر ایڈوکیٹ سدھارتھ اگروال نے میران حیدر کی طرف سے دلائل پیش کئے۔انہوںنے کہا کہ استغاثہ کا بنیادی الزام ہے کہ ایک کروڑ ۶۰؍لاکھ روپے خرچ کئے گئے اور میران حید ر کے اکاؤنٹ میں ۸۰؍ہزارملے۔اس کے علاوہ ساڑھے چار لاکھ روپے نقدی ملے جن میں سے دولاکھ انہوںنے خرچ کئے۔سدارتھ اگروال نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ ایک کروڑ ۶۰؍لاکھ میں سے کسی نے میران حیدر کو دولاکھ ادا کئے ۔انہوںنے سپریم کورٹ کو بتایا کہ اسی معاملہ میں تین ملزمین کو دہلی ہائی کورٹ نے ۲۰۲۱ء میں ضمانت دے دی۔ان پر بھی اسی طرح کا الزام تھا۔ان میں سے ایک آصف اقبال تنہا تھے۔ انہیں میرٹ پر ضمانت دی گئی۔ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا جس میں ابتدائی مرحلہ میں کہا گیا کہ اس کو نظیرنہیں سمجھا جائے گا،لیکن سپریم کورٹ نے بھی تینوں ملزمین کی ضمانت برقرار رکھی اور ان کے خلاف ایس ایل پی کو برخاست کردیا گیا۔انہوںنے مزید کہا کہ تین ملزمین کو اس معاملہ میں ضمانت مل چکی ہے اور یہ ضمانت برقرار ہے۔ان کے مقابلہ میں میران حیدر کا کردار بہت ہلکا ہے۔ انہیں جیل میں پانچ سال ۷؍ماہ ہوچکے ہیں ۔یہاں تک کہ آخری چارج شیٹ میں بھی کہا گیا کہ تحقیقات ابھی جاری ہے۔سدارتھ اگروال نے کہا کہ اگر ان معاملات میں انہیں زیادہ سے زیادہ سزادی بھی جائے تو انہوںنے اپنی سزا کی نصف میعاد مکمل کرلی ہے۔ بنچ نے عدالت کی کارروائی کا وقت ختم ہوجانے کی وجہ سے سماعت ۶؍ نومبر کے لئے ملتوی کردی۔ امکان ہےکہ اس روز بھی دیگر ملزمین کی جانب سے دلائل دینے کا سلسلہ جاری رہے گا۔