لیفٹ پارٹیز کی پریس کانفرنس۔ کہا: یہ آئین میں دیئے گئے آزادی اظہار رائے کا حق سلب کرنے اور حکومت کے غلط فیصلوں پر تنقید سے روکنے کی کوشش ہے
EPAPER
Updated: June 28, 2025, 10:49 AM IST | Mumbai
لیفٹ پارٹیز کی پریس کانفرنس۔ کہا: یہ آئین میں دیئے گئے آزادی اظہار رائے کا حق سلب کرنے اور حکومت کے غلط فیصلوں پر تنقید سے روکنے کی کوشش ہے
مہاراشٹر کی بی جے پی حکومت کے ذریعے مانسون اجلاس میں متعارف کرائے جانے والے پبلک سکیوریٹی ایکٹ کیخلاف لیفٹ پارٹیز اور تنظیموں کی جانب سے جمعہ ۲۷؍جون کو مراٹھی پترکار سنگھ میں پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
اس کانفرنس میں ذمہ داران کا کہنا تھا کہ اگر یہ بل پاس ہوگیا تو آئین میں دی گئی اظہار رائے کی آزادی ختم ہوجائے گی اور حکومت کی غلط پالیسی اور اس کے غلط اقدام پر اعتراض کرنا مشکل ہو جائے گا۔ حکومت اس کی آڑ میں حق وانصاف کی آواز کا گلا گھونٹ دے گی۔
قانون کی آڑ میں کچھ اور کھیل ہے
سروہرا آندولن کی صدر الکا مہاجن نے کہا کہ حکومت نے اس تعلق سے عوام سے تجاویز اور مشورے منگوائے تھے، اس کے خلاف اب تک ۱۴؍ ہزار سے زائد اعتراضات اور مشورے حکومت کو بھیجے جاچکے ہیں ، یہ اپنے آپ میں ایک تاریخی بات ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں عوام اور تنظیموں نے اپنی رائے اور اعتراضات بھیجے ہیں۔ یہ قانون نکسل واد کے خاتمے کے نام پر بنایا جارہا ہے جبکہ مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ یہ اعلان کرچکے ہیں کہ ۲۰۲۶ءتک نکسل واد کا خاتمہ کردیا جائے گا تو پھر اس قانون کی کیا ضرورت ہے۔ دوسرا سوال یہ کہ اربن نکسل واد کو ختم کرنے کے لئے یہ قانون لایا جارہا ہے تو دیہی علاقوں پر بھی اسے تھوپنے کی کیا ضرورت ہے؟ اسی طرح حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ اس کمیٹی کی ذمہ داری بی جے پی صدر باونکولے کو سونپی گئی ہے مگر انہوں نے کسی تنظیم یا اعتراض کرنے والے کو بلاکر سمجھنے اور بات چیت کرنے کی زحمت نہیں کی۔ حالانکہ ایک دن قبل وہ یہ اعلان کرچکے ہیں کہ اس تعلق سے مسودہ تیار کرلیا گیا ہے۔ کیا یہ ڈکٹیٹرشپ نہیں ہے؟
الکا مہاجن نے مزید کہا کہ اس کا اصل مقصد حکومت کے غلط فیصلوں اور اس کے سبب حکومت کے تئیں عوام مخالف ماحول روکنا اور وہ تنظیمیں جو اس حوالے سے اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں ان پر قدغن لگانا ہے۔ یہ بھی کم حیران کن نہیں ہے کہ اس کا مسودہ تیار کرنے میں آئی پی ایس افسر سندیپ پاٹل جو نکسلائٹ ایریا میں تعینات ہیں، کلیدی رول ادا کررہے ہیں۔
ایڈوکیٹ مہیر دیسائی نے کہا کہ ہم کو لاء کالج یہ بتایا گیا تھا کہ عام آدمی کو کسی قانون کے بننے سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ۶۰؍ سے ۷۰؍فیصد ایسے قیدی ہیں جو بے گناہ ہیں اور ان پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوا ہے۔ اس لئے یہ سمجھنا کہ اس طرح کے قانون سے عام آدمی کا نقصان نہیں ہوگا، شاید بڑی غلط فہمی ہوگی۔ ویسے بھی مکوکا اور یو اے پی اے جیسے سخت قوانین موجود ہیں۔ اس کے باوجود حکومت اس طرح کا قانون بناکر خود کو مزید مضبوط کرنے کے ساتھ عام آدمی کی مشکلات بڑھانے کیلئے راستہ ہموار رکھنا چاہتی ہے۔ اب تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کتاب پر بھی چند لوگ بحث کریں تو ان کو بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے۔
مہیر دیسائی نے یہ بھی کہا کہ میں بحیثیت قانون داں اور ایک ذمہ دار شہری کے طور پر یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ اس بل میں ترمیم کے بجائے اس کو پوری طرح سے رد کیا جائے، یہی عوام کے حق میں ہوگا۔
سی پی آئی صدر سبھاش لونڈے نے کہا کہ لایا جانے والا یہ قانون عوام مخالف ہے اور اس کی زد میں میڈیا بھی آئے گا۔ انگریزوں نے پبلک سیفٹی بل پاس کیا تھا ، یہ حکومت بھی انگریزوں کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ مہاراشٹر کے عوام اسے ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ یہی نہیں اس قانون کے بعد حکومت کی من مانی اور بڑھ جائے گی۔ حکومت یہ قانون اکثریت کے زعم میں پاس کررہی ہے مگر عوام قبول کرنے کو تیار نہیں۔
کامریڈ ڈاکٹر ایس کے ریگے نے کہا کہ دراصل حکومت اس قانون کی آڑ میں اس کارپوریٹ سیکٹر کی مدد کرنا چاہتی ہے جس نے الیکشن میں اس کو فائدہ پہنچایا ہے۔انہوں نے مثال دی کہ اڈانی کی تمام مخالفت کے باوجود دھاراوی کے ۸۰؍فیصد مکینوں کو غیر قانونی قرار دیا جا چکا ہے۔ اس کے خلاف آواز بلند کرنے پر اس قانون کے ذریعے مخالفین کو جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ اس لئے اس خطرناک قانون کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ عوام کی طاقت کے آگے حکومت جھکنے پر مجبور ہوگی۔