ہندوستانی فلمی موسیقی میں کچھ نام ایسے ہیں جو صرف گانے نہیں بناتے، بلکہ ہر دھن کے ساتھ ایک نظریہ، ایک ولولہ، ایک پیغام پیش کرتےہیں۔ یہ وہ فنکار ہوتے ہیں جو آواز کو محض سازوں میں قید نہیں کرتے بلکہ اسے روح کی صدا بنا دیتے ہیں۔
EPAPER
Updated: June 28, 2025, 10:43 AM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ہندوستانی فلمی موسیقی میں کچھ نام ایسے ہیں جو صرف گانے نہیں بناتے، بلکہ ہر دھن کے ساتھ ایک نظریہ، ایک ولولہ، ایک پیغام پیش کرتےہیں۔ یہ وہ فنکار ہوتے ہیں جو آواز کو محض سازوں میں قید نہیں کرتے بلکہ اسے روح کی صدا بنا دیتے ہیں۔
ہندوستانی فلمی موسیقی میں کچھ نام ایسے ہیں جو صرف گانے نہیں بناتے، بلکہ ہر دھن کے ساتھ ایک نظریہ، ایک ولولہ، ایک پیغام پیش کرتےہیں۔ یہ وہ فنکار ہوتے ہیں جو آواز کو محض سازوں میں قید نہیں کرتے بلکہ اسے روح کی صدا بنا دیتے ہیں۔ وشال دادلانی انہی منفرد اور باغی طبیعت رکھنے والے فنکاروں میں شامل ہیں۔ جن کی موسیقی نے نہ صرف نوجوان نسل کو جھنجھوڑا بلکہ بالی ووڈ کے روایتی دھاروں میں بھی زبردست ارتعاش پیدا کیا۔
وشال دادلانی ۲۸؍جون ۱۹۷۳ءکو ممبئی کے ایک سندھی کاروباری خاندان میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی موسیقی کا رجحان تھا، لیکن یہ شوق کسی خاندانی روایت یا کلاسیکی تربیت کا نتیجہ نہیں تھا۔ ان کا ذوق مغربی راک، الیکٹرانک اور تجرباتی موسیقی کی جانب زیادہ مائل تھا۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ہل گرانج ہائی اسکول سے حاصل کی اور پھر جے ہند کالج اور سائڈنہم کالج جیسے اداروں سے کامرس میں تعلیم مکمل کی۔ لیکن تعلیم کا میدان ان کے لیے محض ایک مرحلہ تھا، اصل راستہ تو موسیقی سے ہی نکلنا تھا۔
وشال کا موسیقی میں پہلا باقاعدہ قدم۱۹۹۴ءمیں اس وقت پڑا جب انہوں نے’پینٹاگرام‘کے نام سے ایک الیکٹرانک راک بینڈ تشکیل دیا۔ ہندوستان میں جب انڈی میوزک کا تصور ابھی دھندلا تھا، وشال اس بینڈ کے ذریعے اس میدان کو نئی شناخت دے رہے تھے۔ پنٹا گرام کا اسٹیج پر انداز، ان کا باغیانہ لب و لہجہ، اور موسیقی میں جدید تکنیکوں کا استعمال وشال کی انفرادیت کا غماز تھا۔ اس بینڈ میں رہ کر وشال نے خود کو اسٹیج پر نکھارا، لائیو پرفارمنس کی مہارت حاصل کی، اور اپنے اندر کے فنکار کو آزمانے کی مکمل آزادی پائی۔
فلمی دنیا میں وشال دادلانی نےاس وقت قدم رکھا جب ان کی ملاقات موسیقارشیکھر رویجانی سے ہوئی۔ دونوں نے مل کر ایک ایسی موسیقی تخلیق کی جو سننے والوں کے دل میں اتر گئی۔ یہ جوڑی ’وشال شیکھر‘کےنام سے مشہور ہوئی اور۲۰۰۳ءکی فلم ’جھنکار بیٹس‘ نے انہیں پہلا بڑا بریک دیا۔ فلمی دنیا میں یہ جوڑی مسلسل ترقی کرتی گئی، اور’او م شانتی او م‘، ’را۔ ون‘، ’چنئی ایکسپریس‘، ’وار‘، ’پٹھان‘ جیسی فلموں میں انہوں نے نہ صرف کامیاب گیت تخلیق کیے بلکہ نوجوان دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ وشال دادلانی کی گائیکی میں ایک انوکھا جوش، ایک باغیانہ طنطنہ، اور اندرونی توانائی کی گونج سنائی دیتی ہے۔ انہوں نے نہ صرف کمپوزیشن کی بلکہ اپنی آواز سے کئی گیتوں کو زندہ کر دیا۔
ان کے گائے ہوئے کچھ مشہور گانوں میں فلم دھوم۲؍ کا گیت’دھوم اگین‘، فلم ٹائیگر زندہ ہے میں ’سویگ سے سواگت‘، ہائوس فل ۴؍ کا گیت ’بالا‘، فلم ملنگ کا ٹائیٹل ٹریک، اور فلم پٹھان کا گانا’جھومے جو پٹھان ‘جیسے مشہور گیت شامل ہیں۔ ان کے گانوں کی خاص بات یہ ہے کہ وہ محض تفریح نہیں، ایک بیان ہوتےہیں جن میں کبھی محبت، کبھی احتجاج، کبھی خود اعتمادی شامل ہوتی ہے۔
وشال شیکھرنےفلمی دنیا میں کئی ایوارڈزجیتے، جن میں فلم فیئر ایوارڈ برائے بہترین موسیقار، گلوبل انڈین میوزک ایوارڈ(جی آئی ایم اے) اورآئیفا ایوارڈز کے علاوہ متعدد مرتبہ بہترین گانے، البم، اور بیک گراؤنڈ اسکورز کے لیے انہیں نامزد کیا گیا۔ وشال دادلانی آج بھی تجربے سے نہیں گھبراتے۔ وہ نئی آوازوں کو موقع دیتے ہیں، نئے سازوں سے کھیلتے ہیں، اور ہر فلم یا کنسرٹ میں کچھ نیا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے گانوں میں جو طاقت ہے، وہ صرف موسیقی کی نہیں، جذبے کی طاقت ہے۔