انصاف میں تاخیر، غیر سنجیدگی اور تعلیمی اداروں میں خواتین کے تحفظ میں ناکامی پرمظاہرین کی حکومت پر شدید برہمی اور نعرے بازی
EPAPER
Updated: July 16, 2025, 11:45 PM IST | Bhubaneswar
انصاف میں تاخیر، غیر سنجیدگی اور تعلیمی اداروں میں خواتین کے تحفظ میں ناکامی پرمظاہرین کی حکومت پر شدید برہمی اور نعرے بازی
بالاسور میں پروفیسر کے خلاف جنسی استحصال کی شکایت کرنے والی۲۲؍سالہ طالبہ کی خودسوزی کے واقعے کے بعد ادیشہ بھر میں شدید غصے وغصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور احتجاج اب ریاستی دارالحکومت بھونیشور تک پہنچ چکا ہے۔ بدھ۱۶؍ جولائی کو ادیشہ اسمبلی کے باہر زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا گیاجس میںطلبہ تنظیموں، سماجی کارکنوں اور شہریوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ احتجاج اس طالبہ کے انصاف کیلئے کیا جا رہا تھاجو فقیر موہن کالج، بالاسور میں انٹیگریٹڈ بی ایڈ کورس کی طالبہ تھی۔ اس نے اپنے ایک پروفیسر پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا۔ شکایت کے باوجود کارروائی نہ ہونے پر اس نے۱۳؍ جولائی کو خود کو کالج کے باہر آگ لگا لی۔ وہ۹۰؍ فیصد جھلس گئی تھی اور پیر کی رات بھونیشور کے ایمس اسپتال میں دم توڑ گئی۔
احتجاج کے دوران مشتعل ہجوم نے پولیس کے ذریعے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو توڑنے کی کوشش کی جس پر پولیس نے مظاہرین کو واٹر کینن اور آنسو گیس کا استعمال کرتے ہوئے منتشر کیا۔ مظاہرین نے نعرے بازی کرتے ہوئے حکومت پر انصاف میں تاخیر، عدم سنجیدگی اور تعلیمی اداروں میں خواتین کے تحفظ میں ناکامی کے الزامات لگائے۔ مظاہرین نے کہا کہ محض مالی امداد سے انصاف نہیں ہو سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبہ نے ۳۰؍ جون کو کالج کی داخلی شکایتی کمیٹی کو تحریری شکایت دی تھی مگر کالج انتظامیہ نے اسے نظرانداز کردیا ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ذمہ داروں کو نہ صرف سزا دی جائے بلکہ نظام میں اصلاحات بھی کی جائیں تاکہ آئندہ ایسا واقعہ نہ ہو۔حکومت کی جانب سے وزیر اعلیٰ موہن چرن مانجھی نے واقعے پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے متاثرہ کے اہل خانہ کیلئے۲۰؍ لاکھ روپے کی مالی امداد اور اعلیٰ سطحی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔
پولیس نے معاملے میں کارروائی کرتے ہوئے واقعے کے دن ہی پروفیسر کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس پر بی این ایس کی مختلف دفعات کے تحت جنسی ہراسانی، خودکشی پر اُکسانے اور مجرمانہ دھمکی جیسے الزامات لگے ہیں۔ بعد ازاں کالج کے معطل پرنسپل کو بھی پیر کے روز گرفتار کر لیا گیاجس پر طالبہ کی شکایت نظرانداز کرنے اور خودکشی میں بالواسطہ کردار ادا کرنے کا الزام ہے۔اگرچہ مرکزی ملزم کی گرفتاری ہو چکی ہے، مگر مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی عوامی دباؤ کے بعد کی گئی، اور یہ کہ جب تک انتظامی ناکامیوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا، انصاف مکمل نہیں ہوگا ۔ اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی۱۷؍ جولائی کو ریاست گیر بند کا اعلان کر چکی ہیں، جس میں اس واقعے کو حکومت کے خلاف احتجاج کا مرکز بنایا جائے گا۔ ریاستی حکومت پر بڑھتا ہوا عوامی دباؤ ظاہر کرتا ہے کہ یہ معاملہ اب صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ وسیع تر سماجی بے چینی کی علامت بن چکا ہے۔
بی جے ڈی کارکنوں نے لوک سیوا بھون کا گھیراؤ کیا
اس دوران ادیشہ میں بدھ کو لوک سیوا بھون کے گھیراؤ کی کوشش کرنے والے بیجو جنتا دل (بی جے ڈی)کے لیڈروں اور کارکنوں کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے آنسو گیس کے گولے داغے جو مذکورہ معاملے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کررہے تھے ۔ صورتحال اس وقت خراب ہوگئی جب بی جے ڈی کارکنوں نے ریاستی سیکریٹریٹ لوک سیوا بھون کی طرف مارچ کرنے کے لیے لوئر پی ایم جی اسکوائر پرموجود پہلی بیریکیڈ کو توڑا اور پھر دوسری بیریکیڈ کو توڑنے کی کوشش کی۔پولیس نے مظاہرین کو مسلسل خبردار کیا، انہیں منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کے گولے داغے اور پانی کی بوچھار کا استعمال کیا۔ اس کے باوجود، مظاہرین نے اپنا احتجاج جاری رکھا۔
پولیس نے جائے احتجاج کو خالی کرنے سے انکار کرنے پر بی جے ڈی کے کئی اراکین اسمبلی اور لیڈروں سمیت سیکڑوں مظاہرین کو حراست میں لے لیا ۔ قابل ذکر ہے کہ بی جے ڈی نے بالاسور ضلع میں بدھ کی صبح ۶؍ بجے سے دوپہر ۲؍ بجے تک۸؍ گھنٹے کے بند (ہڑتال) کا اعلان کیا تھا۔ یہ اعلان طالبہ کی موت کی عدالتی تحقیقات کے مطالبے کے سلسلے میں کیا گیا تھا۔
طالبہ کے والدسے راہل گاندھی نے گفتگو کی
لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر اور کانگریس کے رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی نے اس دوران متوفی طالبہ کے والد سے رابطہ کیا اور انصاف کی لڑائی میں مکمل ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ بدھ کو راہل گاندھی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا ’’ادیشہ کے بالاسور میں انصاف کی لڑائی میں جان گنوانے والی بہادر بیٹی کے والد سے بات کی۔ ان کی آواز میں بیٹی کا درد، خواب اور جدوجہد سب کچھ محسوس کیا۔ انہیں یقین دلایا کہ کانگریس پارٹی اور میں ہر قدم پر ان کے ساتھ ہیں۔ جو کچھ ہوا وہ صرف غیر انسانی اور شرمناک نہیں بلکہ پورے سماج کا زخم ہے۔ ہم ہر حال میں یہ یقینی بنائیں گے کہ متاثرہ خاندان کو مکمل انصاف ملے۔‘‘ انہوں نے اپنی ایک اور پوسٹ میں لکھا ’’ادیشہ میں انصاف کیلئے لڑنے والی ایک بیٹی کی موت دراصل بی جے پی کے نظام کے ہاتھوں قتل ہے۔ اس بہادر طالبہ نے جنسی استحصال کے خلاف آواز اٹھائی، لیکن انصاف دینے کے بجائے اسے دھمکایا گیا، ہراساں کیا گیا اور بار بار ذلیل کیا گیا۔ جنہیں اس کی حفاظت کرنی تھی، وہی اسے توڑتے رہے۔ہر بار کی طرح اس بار بھی بی جے پی کا نظام ملزموں کو بچاتا رہا، اور ایک معصوم بیٹی کو خود کو آگ لگانے پر مجبور کر دیا۔