گھروں کے باہربلب جل رہےہیں مگر ان سے فائدہ اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔ سردی سےبچنے کیلئے سب لحاف اور کمبل میں دبکے ہوئے ہیں
EPAPER
Updated: January 05, 2021, 9:28 AM IST | Hamza Fazal Islahi | Azamgarh
گھروں کے باہربلب جل رہےہیں مگر ان سے فائدہ اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔ سردی سےبچنے کیلئے سب لحاف اور کمبل میں دبکے ہوئے ہیں
جنوری کی سرد رات ہے۔ اس وقت۹؍ بج کر ۴۰؍ منٹ ہوئے ہیں ۔ گھر سے نکلا ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ منجیرپٹی گاؤں ( اعظم گڑھ) کی اس گلی میں سناٹا چھا یا ہوا ہے، کوئی آجا نہیں رہا ہے۔ کسی گھر سے بھی کوئی آواز نہیں آرہی ہے۔ گھروں کے باہربلب جل رہےہیں مگر ان سے فائدہ اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔ سردی سےبچنے کیلئے سب لحاف اور کمبل میں دبکے ہوئے ہیں۔
سرد ی کی راتوں میں عشاء کی نما ز کے بعد لوگ اپنے گھروں سے نہیں نکلتے۔ معمر افراد عصر کے بعد ہی خود کو قید کرلیتےہیں۔ اس سردی میں آگ کے بغیر باہر کی محفلوں کاتصور ہی نہیں کیاجاسکتا۔ تھوڑا پہلے آتا تو شاید الا ؤ کے گرد بیٹھے ہوئے لوگ مل جاتے مگر اب کوئی نہیں ہے، کہیں کہیں راکھ کے ڈھیرہیں جو اس کا ثبوت ہیں کہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی آگ بجھائی گئی ہے ۔ راکھ کے چند ڈھیر ایسے ہیں جن میں تھوڑی بہت آنچ باقی ہے، ان کے آس پاس کتے اپنی گردن اپنے لحاف نماجسم میں چھپائے ہوئےہیں۔ ایک گلی سے دوسری گلی پہنچا، یہاں بھی کوئی نہیں ہے، تھوڑا آگے بڑھا تو کچھ آوازیں سنائی دیں، ادھر ادھر نظر دوڑائی، ایک گھر کے سامنے بڑے بوڑھوں کی محفل سجی ہوئی ہے، وہ آگ تاپ رہے ہیں، دنیا جہان کی باتیں کررہے ہیں۔ آگ تاپتے لوگوں کو دیکھ کر مجھے اپنے ہاتھ زیادہ سرد محسوس ہو رہے ہیں۔ مَیں اُنہیں سردی سے بچانے کیلئے جیکٹ کے جیب میں ہاتھ ڈال لیتا ہوں۔ ٹہلتے ٹہلتے گھنی آبادی والا علاقہ ختم ہوگیا ہے۔ آلو کےکھیت آگئے ہیں۔ آبادی سے قریب کھیتوں میں بلب کی روشنی آرہی ہے۔ آسمان میں دھندلا سا چاند ہے جو کھیتوں کو یک ٹک دیکھ رہا ہے، اس کی روشنی میں کھیتوں کی ہریا لی اور سرخ سوئٹر پہنے خاموش کھڑ ا ’بجوکا‘ دکھائی دےرہا ہے۔ کتوں اور دوسرے جانوروں کی آوازیں سناٹے کو چیر رہی ہیں۔
اس خطے میں عام طور پر جنوری کے مہینے میں رات کا درجۂ حرارت ۵۔۴؍ ڈگری ہو تا ہے۔ دن میں سورج نکلنے کے بعد درجۂ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ ۲۰۔۱۵؍ ہوجاتا ہے لیکن امسال اب تک کم سے کم درجۂ حرارت ۱۵۔۱۳؍ ڈگری جبکہ زیادہ سے زیادہ درجہ ٔ حرارت ۲۵۔۲۲؍ درج کیا گیا ہے ۔
سردی کی صبح
صبح صبح شدیدسردی میں بستر چھوڑنے کی ہمت ہی نہیں ہور ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے فجر کی نماز میں تین چار صفیں بنتی تھیں، اب وہاں نمازیوں کی تعداد کم ہوگئی ہے اور یہ صف ایک سے ڈیڑھ تک سمٹ گئی ہے۔ ’’ٹھنڈی صبح‘‘ کی شگفتگی دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ کہرے کا نام ونشان نہیں ہے۔ ۸؍ بج کر ۴۴؍ منٹ ہوئے ہیں ۔ پر نس چوہان اور اُن کے ۲۰۔۱۵؍ ساتھی آرمی یا پولیس بھر تی کی تیاری کر رہے ہیں۔ روزانہ دوڑنے نکلتے ہیں۔ آج بھی وہیں سے لوٹے ہیں۔
دھوپ کا سہارا
میںرات جہاں سے لوٹ گیا تھا، اب اسی راستے سے جارہاہوں۔ جابجا لوگ کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں، سردی سے بچنے کیلئے دھوپ سینک رہے ہیں۔ پہلے ان کرسیوں کی جگہ چارپائیاں ہوتی تھیں۔ اب کرسی زیادہ ہوگئی ہے، چارپائی اکادکاہے۔ کھیت میں کام کرنے والوں کا سردی کچھ بگاڑ نہیں سکی ہے، وہ حسب معمول اپنےکھیت میں ہیں۔ کھیلنے والے بھی کھیل رہے ہیں۔ میں چلتے چلتے ایک کھیت کے قریب پہنچ گیا ہوں، یہاں ایک گھر سے بچوں کے پڑھنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ میرے قدم رک گئے ہیں۔نگاہوں کے سامنے حافظ محمدوقاص اپنی چھت پر بچوں کو کھلے آسمان کے نیچے پڑھا رہے ہیں، ان کا مقصد بچوں کو سردی سے بچانا ہے۔ ایسے ہی خون جمادینے والی سردی سے بچنے کیلئے سب کچھ نہ کچھ ’’جگاڑ‘‘ کرلیتےہیں۔ ابھی جنوری اور غضب ڈھائے گی۔ پھر دیکھئے لوگ کیا کیا کرتے ہیں؟ بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ اس سال سردی کم زیادہ ہورہی ہے ۔ ۵؍دن پہلے بہت سردی تھی، لوگ تھرتھر کانپ رہے تھے، سرد ہوائیں چل رہی تھیں جسے پرانے لوگ’ شیت لہری‘ کہتے ہیں۔ کم ہی لوگ گھر سے نکل رہے تھے۔ اب ویسی کیفیت نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سن یاد نہیں ہے ، ۱۶۔۱۵؍ سال پہلے بہت ٹھنڈ پڑی تھی۔ کئی ہفتے تک سورج دکھائی نہیں دیا تھا۔ دن بھر گھنے کہرے کی چادر تنی رہتی تھی۔ سوراخ میں چھپے سانپ بچھو بھی مرنے لگے تھے۔ اُس سال راہ چلتے بائک سواروں کیلئے شال، سوئیٹر اور جیکٹ جلا کر گرمی حاصل کرنا عام بات تھی۔ وہ چلتے چلتے اچانک رک جاتے تھے اورکہیں بھی کسی بھی چیز سے آگ تاپنے لگتے تھے۔ کئی بائک سوار راستے ہی میں اکڑ گئے تھے اور اسپتال پہنچتے پہنچتے دم توڑ گئے تھے یا اسپتال پہنچنے کے بعدچل بسے تھے۔
چائے کا ہوٹل
ایک دن بعد میں چائے کے ہوٹل پہنچا ہوں۔ یہ ہوٹل منڈئی میں ہے۔ یہاں رتی لال کوئلے کی بھٹی پر چائے بنار ہے ہیں۔ ان کی نظر چائے پر ہے۔ ایک ہاتھ سے بھٹی کا پہیہ گھما رہےہیں۔ اس میں سے گھرگھر کی آوازیں آرہی ہیں۔ دوسرے ہاتھ سے چائے کا برتن سنبھالے ہوئےہیں۔ مٹی کی بھٹی کےپہلےحصے میں ایک باکس رکھا ہے۔ اس کے چاروں طرف شیشے لگے ہیں۔ اس میں سے جلیبی، گھاٹی اور سموسے دکھائی رہے ہیں۔ ان کے ہوٹل کے ٹھیک سامنے اینٹ اور پتھر کی نیچی نیچی بنچیں ہیں۔ ان پر بیٹھےلوگ چائے کی چسکیاں لے رہے ہیں ۔ مفت کی دھوپ کھا رہےہیں۔ باتیں بھی کر رہے ہیں۔ موضوع گفتگو مچھلی کا شکارہے۔ سب اپنے اپنے قصے سنارہےہیں۔ ایک نے بتایا کہ وہ مچھلی کا شکار کرنے گیا تھا، ڈوبنے لگا تھا، کسی طرح بچا۔ اب ندی میں ڈوبنے سے بچنے کیلئے کئی قصے سامنے آگئے۔ لیجئے موضوع گفتگو بدل گیا ہے۔ اس بحث میں’ بھینس ‘ کود گئی ہے۔ کس کی بھینس مضبوط ہے؟ کس کی کمزور ہے ؟کون زیادہ دودھ دیتی ہے؟ اس پر تبادلۂ خیال ہورہا ہے۔ پہلے پانی اور اب بھینس .... بھینس پانی میں جاسکتی ہے، اس لئے یہاں سے آگے بڑھ رہا ہوں۔ سامنے سرسوں کے کھیت ہیں۔ یہ سردی ہی میں لہلہاتے ہیں۔ ان میں پیلے پیلے پھول ہیں۔ قریب ہی ہرے بھرے مٹر اور آلو کے کھیت بھی ہیں ۔ اس موسم میں مٹر کااستعمال بڑھ جاتا ہے۔ اکثر پکوان میں مٹر اور آلو کا استعمال ہوتا ہے۔ صبح چائے پرانڈے کے ساتھ ’نمو نہ‘ پیش کیاجاتا ہے۔ یہ نمونہ ہری مٹر سے بنتا ہے۔ لوگ ناشتے میںچاول کی روٹی کے ساتھ آلو اور مٹر کی سبزی شوق سے کھاتےہیں۔ سردی جو اپنے ساتھ یہ سب لے آتی ہے، اپنے ساتھ لے بھی جاتی ہے، اس لئے کھانے کےشوقین افراد سردی کا خوب خوب فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ اُنہیں اُس کے جانے کا ملال بھی ہوتا ہے۔