Inquilab Logo Happiest Places to Work

گھٹنے کا لیگامنٹ متاثرہونے کے بعد ۴۷؍ سال کی عمر میں سُنیت سائیکلسٹ بن گئے

Updated: August 23, 2025, 11:19 PM IST | Shahab Ansari | Mumbai

سرجری کو آدھا علاج اور بعد کی فیزیو تھیراپی کو باقی کا علاج قرار دیا، ذاتی تجربہ کی بنیاد پر کھلاڑیوں سے حوصلہ نہ ہارنے کی اپیل کی

Sunit Kopra at the press conference
سنیت کوپرا پریس کانفرنس میں

چند روز قبل سنیت کوپرا اپنی اہلیہ کے گھٹنے کے درد کے علاج کیلئے تھانے میں ڈاکٹر کے پاس پہنچے تو ڈاکٹر انہیں پہچان نہیں سکے تھے کہ یہ وہی شخص ہے جس کے پیر کا ’لیگامنٹ‘ متاثر ہونے کی وجہ سے انہوں نے اس کی سرجری کی تھی۔ چند برس قبل گھٹنے کی سرجری کرانے والے سنیت اب قومی سطح کے سائیکلسٹ بن چکے ہیں ۔ اس لئے ان کی گفتگو میں یہ طے ہوا کہ سنیت اپنی آپ بیتی لوگوں کے سامنے بیان کریں تاکہ جو کھلاڑی یا عام افراد لیگامنٹ ٹوٹ جانے کی وجہ سے دوبارہ کھیلنے کا ارادہ ترک کرچکے ہیں یا یہ سوچ چکے ہیں کہ اب وہ پہلے کی سی حالت پر نہیں آسکتے انہیں معلوم ہوسکے کہ اس کا۱۰۰؍ فیصد علاج ممکن ہے۔
 ڈاکٹر بابا صاحب نے بتایا کہ ’لیگامنٹ ٹیئرنگ‘ کھلاڑیوں میں بہت عام بات ہے لیکن عام افراد بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ خاص طور پر ۴۰؍ سال کی عمر پار کرنے کے بعد کہیں پیر پھنس کر مڑ جائے تب بھی لیگامنٹ ٹوٹ جاتا ہے۔ البتہ ہر شخص کی سرجری نہیں کی جاتی لیکن جس کی سرجری ضروری ہے وہ نہ کروائے تو ان کے گھٹنے بہت جلد گھِس جاتے ہیں ۔ تاہم لیگامنٹ ٹوٹنے پر سرجری آدھا علاج ہے، باقی کا آدھا علاج مریض پر منحصر ہوتا ہےکہ وہ اپنی ’فیزیو تھیراپی‘ کروائے۔
 جمعرات کو ایک پریس کانفرنس کے دوران سنیت کوپرا نے اپنے تعلق سے بتایا کہ وہ تھانے میں ڈسٹرکٹ لیول کے کرکٹ کھلاڑی تھے اور کرکٹ میچ کے دوران ان کے پیر کا لیگامنٹ ٹوٹ گیا تھا۔ اس وجہ سے وہ تھانے میں واقع ہائی لینڈ سپر اسپیشلٹی اسپتال پہنچے جہاں ڈاکٹر بابا صاحب نے ان کی سرجری کی تھی۔
 سنیت کے مطابق سرجری کے بعد فیزیو تھیراپی میں انہیں بہت تکلیف ہوتی تھی اور انہوں نے سن رکھا تھا کہ بہت سے لوگ تکلیف کی وجہ سے فیزیو تھیراپی ادھوری چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے پوری طرح ٹھیک نہیں ہوپاتے۔ البتہ دوبارہ کھیل نہ پانے پر ان کی ملازمت جانے کا خطرہ تھا اس لئے انہوں نے ہار نہیں مانی۔
 فیزیو تھیراپی مکمل ہونے کے بعد بھی ان کی چال میں لنگڑاہٹ تھی اس لئے وہ دوبارہ ڈاکٹر کے پاس گئے تو ڈاکٹر نے انہیں تیراکی یا سائیکل چلانے کا مشورہ دیا۔ لاک ڈائون کی وجہ سے انہوں نے سائیکل چلانا شروع کردیا۔
 سائیکل چلانے سے ان کے پیر کا لنگراپن ختم ہوگیا اور وہ آج قومی سطح کے سائیکلسٹ بن گئے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ۸۹؍ گھنٹوں میں ۱۲۰۰؍ کلو میٹر سائیکل چلائی تھی۔ اب انہوں نے موسم سرما میں ۹؍ دنوں میں کشمیر سے کنیا کماری تک کا سفر سائیکل پر طے کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔  انہوں نے لوگوں کیلئے یہی پیغام دیا ہے کہ لیگامنٹ ٹوٹنے پر کوئی بھی کھلاڑی ہمت نہ ہارے تو واپس اپنے کھیل میں لوٹ سکتا ہے، البتہ سرجری آدھا علاج ہے اور فیزیو تھیراپی وغیرہ باقی علاج ہے اور اس میں تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK