• Sat, 06 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بی ایل اوز کی اموات پر سپریم کورٹ فکر مند

Updated: December 05, 2025, 10:19 AM IST | Agency | New Delhi

ہدایت دی کہ اگرکام کا بوجھ زیادہ ہے تو ریاستوں کو الیکشن کمیشن کوا ضافی اسٹاف فراہم کرنا چاہئے لیکن واضح کردیا کہ بی ایل اوز کو ڈیوٹی کرنی ہی ہوگی

BLOs in Kolkata are continuously protesting against work pressure and deaths. Picture: INN
کام کے دبائو اور اموات کیخلاف کولکاتا میں بی ایل اوز مسلسل احتجاج کررہے ہیں۔ تصویر:آئی این این
ایس آئی آر کے نتیجے میںکام کے بڑھتے ہوئے بوجھ سے بی ایل اوز کی اموات اور دیگر مسائل پر ہونے والی سماعت کےدوران سپریم کورٹ نے جمعرات کو اہم فیصلہ سنایا۔ عدالت نے ہدایت دی کہ ریاستی حکومتوں یا ریاستی الیکشن کمیشن کے ذریعہ مقرر کردہ ملازمین کو ایس آئی آر کی ڈیوٹی نبھانی ہی ہوگی۔ لیکن اگر ان پر کام کا بوجھ بہت زیادہ ہے تو ریاستی حکومتوں کو الیکشن کمیشن کو زائد افراد مہیا کروانے چاہئیں۔ کورٹ نہیں چاہتے کہ اس کام کی وجہ سےکسی بھی اتنا بوجھ پڑے کہ وہ خودکشی کرلی۔ اس لئے یہ ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لوگوں پر کام کا بوجھ کم کرے اور اس کے لئے الیکشن کمیشن سے تعاون کرے۔کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اگر کسی کے پاس ڈیوٹی سے استثنیٰ کی کوئی خاص وجہ ہے تو ریاستی حکومت ان کی اپیل پر غور کر سکتی ہے اور متبادل کا تقرر کر سکتی ہے۔چیف جسٹس آف انڈیا سوریہ کانت اور جسٹس جوئےمالیہ باغچی پر مشتمل بینچ نے کہا کہ ریاستی سرکاری ملازمین دیگر قانونی فرائض سمیت ایس آئی آر کے فرائض بھی انجام دینے کے پابند ہیں۔ ریاستی حکومتوں کا بھی فرض ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کوضرورت کے مطابق زائد عملہ فراہم کریں تاکہ یہ مشق بہتر طریقے سے انجام دی جاسکے۔ 
عدالت نے کہا کہ بی ایل اوز کے کام کے اوقات کو کم کرنے پر غور کیا جانا چاہئے اور پہلے سے ہی دیگر فرائض انجام دے رہےافسران پر ایس آئی آر کا کام کم ہوگا ۔سپریم کورٹ نے یہ تبصرہ جنوبی ہند کے اداکار وجے کی پارٹی تملگا ویٹری کزگم (ٹی وی کے) کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کیا۔ ٹی وی کے کی درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ کمیشن کو ہدایت کی جائے کہ وہ وقت پر کام مکمل نہ کرنے والے بی ایل اوز کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کرے۔
واضح رہےکہ ملک کی مختلف ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں میں اس وقت ووٹر لسٹ کی خصوصی جامع نظرثانی (ایس آئی آر) کا عمل تیز رفتاری کے ساتھ جاری ہے۔ حالانکہ تیزی کے ساتھ ایس آئی آر کا عمل انجام دینے کی کوشش نے بی ایل او (بلاک لیول افسر) پر دباؤ بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اب تک ۳۰؍سے زائد بی ایل اوز کی موت کے لیے ایس آئی آر سے پیدا دباؤ کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ 
سینئر وکیل گوپال شنکر نارائنن نے کہا کہ یتیم بچے اور غمزدہ خاندان مختلف ریاستوں میں موجود ہیں۔ بی ایل اوز کو قانونی چارہ جوئی کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔یہ اساتذہ اور آنگن واڑی کارکن ہیں، کیا ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جا سکتا ہے؟ انہوں نے سپریم کورٹ کو مطلع کیا کہ صرف اتر پردیش میں۵۰؍ ایف آئی آر درج کی گئی ہیںاور کئی جگہوں پر بی ایل اوز کو۲۴ ؍سے۴۸؍ گھنٹوں کے اندر اپنا کام مکمل کرنے کا نوٹس جاری کیا جارہا ہے۔  
اس معاملے میں سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے بی ایل اوز پر بڑھے ہوئے دباؤ کو کم کرنے کیلئے کچھ اہم ہدایات ریاستی حکومتوں کو دیں۔ مثلاً کام کے گھنٹے کم کرنا، اضافی ملازمین کی تعیناتی اور انسانی بنیادوں پر سہولت کی اپیلوں پر غور کرنا۔ بی ایل او کی انفرادی سہولیات اور عرضیوں پر ’کیس ٹو کیس‘ بنیاد پر غور کرنے کی خصوصی ہدایت عدالت عظمیٰ نے ریاستوں کو دی ہے۔ ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ کوئی بھی بی ایل او اپنا مسئلہ لے کر براہ راست عدالت کا رخ کر سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK