• Wed, 05 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سپریم کورٹ نے راجستھان کے تبدیلیٔ مذہب مخالف قانون پر نوٹس جاری کیا

Updated: November 05, 2025, 1:28 PM IST | Agency | New Delhi

عرضی گزار نے عدالت کو بتایا کہ اس قانون کے کئی دفعات شہریوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہیں اور یہ دفعات اجتماعی سزا اور انتقامی کارروائی جیسی ہیں۔

When justice is not provided anywhere, people go to the Supreme Court. Photo: INN
کہیں انصاف نہیں ملتا تو لوگ سپریم کورٹ جاتے ہیں۔ تصویر: آئی این این
سپریم کورٹ نے منگل کو تبدیلیٔ مذہب سے متعلق عرضی پر سماعت کرتے ہوئے راجستھان حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔ عدالت میں دائر مفاد عامہ کی عرضی میں غیر قانونی طریقے سے تبدیلیٔ مذہب پر روک لگانے سے متعلق ایکٹ۲۰۲۵ء کی متعدد دفعات کو چیلنج کو چیلنج کیا گیا ہے۔ 
جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس سندیپ مہتا کی دو رکنی بنچ نے یہ نوٹس ایم حذیفہ (وکیل ) اور معروف انسانی حقوق کارکن جان دَیال کی جانب سے دائر عرضی پر سماعت کے بعد جاری کیا۔یہ عرضی ایڈوکیٹ آن ریکارڈ یشونت سنگھ کے ذریعے دائر کی گئی تھی، جس میں کہا گیا ہے کہ قانون کی کئی دفعات شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور یہ دفعات اجتماعی سزا اور انتقامی کارروائی جیسی ہیں۔ 
عرضی گزاروں کی پیروی سینئر ایڈووکیٹ ابھی مہادیو تھپسے نے کی۔ عدالت نے اس مقدمے کو ایک دیگر زیرِ سماعت مفادِ عامہ عرضی دشرت کمار ہنونیہ بنام ریاست راجستھان کے ساتھ منسلک کر دیا، جس پر پہلے ہی نوٹس اور حکمِ امتناعی (اسٹے) جاری کیا جا چکا ہے۔ سماعت کے دوران بنچ نے سوال کیا کہ یہ عرضی راجستھان ہائی کورٹ میں کیوں دائر نہیں کی گئی؟اس پر سینئر ایڈوکیٹ حذیفہ احمدی نے وضاحت کی کہ دیگر ریاستوں کے تبدیلیٔ مذہب مخالف قوانین کے خلاف اسی نوعیت کی عرضیاں پہلے سے سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہیں، اسلئے یہ معاملہ بھی اسی عدالت میں لایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ راجستھان کا قانون تمام ریاستی قوانین میں سب سے سخت ہے، کیونکہ اس میں اجتماعی تبدیلیٔ مذہب (یعنی دو یا زیادہ افراد کے مذہب تبدیل کرنے) پر۲۰؍ لاکھ روپے تک جرمانے اور۲۰؍ سال سے عمر قید تک کی سزا کا بندوبست ہے۔ 
عرضی گزاروں کا کہنا تھا کہ اس کے سخت دفعات شہریوں کو بغیر سماعت کے سزا دینے کا اختیار دیتی ہیں، جو آئین کےمختلف دفعات کی صریح خلاف ورزی ہے۔ان کے مطابق یہ قانون، ملک میں قانون کی حکمرانی اور اختیارات کی علاحدگی کے اصول کو کمزور کرتا ہے اور اس کا سب سے زیادہ اثر اقلیتی اور پسماندہ طبقات پر پڑے گا۔ عرضی میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ ان دفعات کو غیر آئینی قرار دے کر منسوخ کرے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK