Inquilab Logo Happiest Places to Work

سپریم کورٹ کا غیرقانونی عمارتوں کے مکینوں کو راحت دینے سے انکار

Updated: June 18, 2025, 1:22 AM IST | Iqbal Ansari | Mumbai

ممبرا خان کمپاؤنڈ کی ۱۷؍ عمارتوں کے انہدام کے معاملے میں عدالت عظمیٰ نے کہاکہ انڈر ورلڈ غیر قانونی تعمیرات میں ملوث ہے اور یہ تعمیرات شہری انتظامیہ کی ملی بھگت سے ہو رہی ہیں

The scene after the demolition of illegal buildings constructed in AVK (Khan) compound. (Photo: Inqilabad)
اے وی کے (خان) کمپاؤنڈ میں تعمیرشدہ غیرقانونی عمارتوں کے انہدام کے بعد کا منظر۔ (تصویر: انقلاب)

ممبرا کے قریب شیل علاقے کے ’اے وی کے‘ (خان)کمپاؤنڈ میں زیر تعمیر اور حال ہی میں تعمیر کردہ ۱۷؍ عمارتوں کو منہدم کرنے کا بامبے ہائی کورٹ نے تھانے میونسپل کارپوریشن ( ٹی ایم سی ) کو جو حکم دیا تھا، اس پر منگل کو سپریم کورٹ نے بھی مہر لگا دی اور انہدامی کارروائی   روکنے کیلئے کسی بھی طرح کی مداخلت کرنے سے انکار کر دیا۔ سپریم کورٹ نے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کی ستائش بھی کی۔ عدالت عظمیٰ نے  غیرقانونی عمارتوں کے مکینوں کو راحت دینے کے بجائے عرضی گزار   ہی پربرہمی کا اظہار کیا۔جسٹس اجل بھویان اور منموہن کی دورکنی بنچ نے بامبے ہائی کورٹ کا حوالہ دیا کہ انڈر ورلڈ غیرقانونی تعمیرات میں ملوث ہے اور یہ تعمیرات  شہری انتظامیہ کی ملی بھگت سے ہو رہی ہیں۔
 جسٹس منموہن نے کہا کہ ’’ممبرا کے بعد ممبئی میں غیر قانونی تعمیر ات ہو ں گی، بس اتنا ہی کرنا باقی ہے۔ براہ کرم ،اپنے شہر کو بچائیں ورنہ سب کچھ غیر قانونی ہو جائے گا۔بامبے ہائی کورٹ نے بہت دلیرانہ موقف اختیار کیا ہے اور ہم اس کی ستائش کرتے ہیں۔‘‘ہائی کورٹ کی مزید تعریف کرتے ہوئےدو رکنی بنچ نے کہاکہ صحیح فیصلہ لینے کیلئے  ہائی کورٹ کو خراج تحسین۔ دیکھیں، آپ نے کسی تیسرے فریق کی زمین پر قبضہ کیا اور بغیر کسی اجازت کے جائیداد بنائی۔ یہاں قانون کی کوئی حکمرانی نہیں ہے !  براہ کرم دیکھیں، یہ انڈر ورلڈ سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں۔‘‘
 سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ عرضی گزار نے غیر قانونی عمارت میں مکان خریدا ہے اور غریبوں کو بے گھر ہونے سے بچانے کی  نیت سامنے رکھنا ایک ’اچھی حکمت عملی‘ ہے لیکن ہائی کورٹ نے یہ حقیقت ریکارڈ کی ہے کہ ان تمام’پوش علاقوں میں بڑے پیمانے پر تعمیرات‘کے پس پشت انڈر ورلڈ کا ہاتھ ہے۔
 جسٹس منموہن نے  عرضی گزار سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ’’  آپ نے بغیر کسی اجازت لئے کتنی عمارتیں تعمیر کی ہیں؟ براہ کرم جائیں، جب تک آپ ان بے ضمیر بلڈرس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے، یہ رجحان جاری رہے گا، آپ لوگوں کو اس کا استعمال کرتے ہوئے روکنا چاہئے۔‘‘ بنچ کامشاہدہ ہےکہ مذکورہ  عمارتیں منصوبہ بندی کرنے والی  اتھاریٹی سے بغیر کسی اجازت کے تعمیر کی گئیں اور وہ بھی تیسرے فریق کی زمین پر قبضہ کر کے ۔ جسٹس بھویان نے کہا کہ غیر قانونی تعمیرات کا معاملہ منظر عام پر نہیں آتا، اگر کوئی متاثرہ خاتون یہ دعویٰ کرنے کیلئے سامنے نہ آتی کہ اس کی زمین پر قبضہ کرکے عمارتیں تعمیر کی جاچکی ہیں۔
 عدالت عظمیٰ نے درخواست گزار دانش ظہیر صدیقی جنہوں نے ۱۲؍جون کے ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج کیا تھا،سے کہا کہ نظرثانی کیلئے ہائی کورٹ سے رجوع کریں۔صدیقی نے دعویٰ کیا تھاکہ۱۷؍ عمارتوں میں سے ۸؍کو منہدم کر دیا گیا ہے جس سے کم از کم ۴۰۰؍خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔اس نے ۱۷؍ عمارتوں میں سے ایک عمارت میں ایک فلیٹ کا خریدار ہونے کا دعویٰ کیا اور دلیل دی کہ ہائی کورٹ نے ’کارٹ بلانچ‘اختیار دیا ہے کہ تھانے میونسپل کارپوریشن عدالت کے مزید کسی حکم کا انتظار کئے بغیر انہدامی کارروائی کر سکتا ہے۔تاہم سپریم کورٹ نے کہاکہ’’ہم کوئی رائے ظاہر نہیں کرتے۔ ‘‘
 گزشتہ روز خان کمپاؤنڈ کے ایک بلڈر نے بتایا تھا کہ پیر کو بامبے  ہائی کورٹ نے انہدامی کارروائی  پر اسٹے دے دیا مگر منگل کو پتہ چلا کہ انہدامی کارروائی پر اسٹے نہیں دیا گیا تھابلکہ جن عمارتوں میں لوگ مقیم ہیں، انہیں مکان خالی کرنے کی مہلت دی گئی ہے اور وہ بھی اس شرط پر کہ وہ بلا کسی چوں چرا کے مکان خالی کر دیں گے۔اس کی تصدیق   ڈیولپر نے بھی کی ہے۔
 واضح رہے کہ ۱۲؍ جون کو ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ عرضی گزار کی زمین پر تعمیر کی گئی سبھی ۱۷؍ عمارتوں کو منہدم کردیا جائے۔ غیر قانونی عمارتوں میں مکان خریدنے والوں کے تعلق سے ہائی کورٹ نے کہا  تھا کہ’’جو لوگ غیر قانونی تعمیرات میں مکانات خریدتے ہیں ،وہ لالچی  ہوتے ہیں اور وہ اپنے حقوق کی تلفی کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ اگر غیر قانونی تعمیرات کے مکینوں کو راحت دی جائے گی تو گویا  قانونی عمارتوں میں مکان خریدنے والوں سے ناانصافی ہوگی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK