Inquilab Logo

کھرگون میں  مسلم اور غیر مسلم محلوں کے درمیان انتظامیہ نے دیوار کھڑی کردی

Updated: June 19, 2022, 9:24 AM IST | khargone

خشخاش واڑی اور برہمن پوری کے درمیان دیوار کی تعمیر کے ساتھ ہی میانمار وٹھل مندر اور بھٹ واڑی میں دونوں فرقوں کے محلوں کو الگ الگ کردیاگیا، مسلمانوں  نے دیوار کی بنا پر بنیادی سہولیات سے محرومی کی شکایت کی

In Khargone, regular walls have been built between Muslim and non-Muslim settlements and iron gates have been installed.
کھرگون میں مسلم اور غیر مسلم بستیوں کے درمیان کہیں باقاعدہ دیوار تعمیر کی گئی ہے تا کہیںآہنی گیٹ لگادیئے گئے ہیں۔

کھرگون میں فساد کو ۲؍ ماہ گزر چکے ہیں مگر نہ حالات  پوری طرح معمول  پر آئے ہیں نہ ہی ایک دوسرے پر اعتماد بحال ہوا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ سماج کے مختلف طبقات میں اعتماد کی بحالی کی کوشش کرنے کے بجائے حکومت نے خود ہی یہاں مسلمانوں اور ہندوؤں کی  اکثریتی  بستیوں  کے درمیان باقاعدہ کنکریٹ کی دیوار کھڑی کردی ہے۔ ۱۵؍ سے ۳۰؍ فٹ اس یہ اونچی دیوار کہیں مکمل ہوچکی ہےا ور کہیں اس پر کام چل رہا ہے اور یہ اس ہندوستان کو چڑا رہی ہے جو گنگا جمنی تہذیب کا حامل ہونے کا دعویٰ کیا کرتا تھا۔ 
 کھرگون کے مسلم اکثریتی علاقے خشخاش واڑی  اور ہندواکثریتی حصے زمیں دار محلے کے درمیان انتظامیہ نے ۱۲؍ فٹ اونچی دیوار کھڑی کی ہے۔اس کے اوپری حصے پر سرحدوں والی تاریں بھی لگائی گئی ہیں تاکہ کوئی دیوار کو عبور نہ کرسکے۔ اس کے علاوہ سنجے نگر میں ۲؍ جگہوں پر  دیواریں تعمیر ہوئی ہیں جبکہ برہمن پوری میں بریکیڈ فکس کردیئے گئے ہیں۔   اس سلسلے میں مقامی افراد سے جب بات کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ’’راکھ میں چنگاری ابھی باقی ہے۔‘‘ ہندوؤں اور مسلمانوں کی بستیوں کے درمیان دیواروں  کی  تعمیرکا مقصد  انتظامیہ  نے امن کو برقرار رکھنا بتایاہے۔ یاد رہے کہ کھرگون میں اپریل کے اوائل میں رام نومی کے جلوس   کے دوران فساد پھوٹ پڑا تھا جس کے بعد بلڈوزر کارروائی کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنایاگیاتھا۔ 
  بہرحال مقامی افراد کی بڑی تعداد لوگوں کے درمیان دیوار حائل کرنے کے انتظامیہ کے اس فیصلے کے خلاف ہیں۔وہ اس سلسلے میں سوال بھی کررہے ہیں مگر انہیں کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے پارہا۔ ان کا سوال جہاں اس دیوار کی وجہ سے معاشی تانے بانے  کے متاثر ہونے سے متعلق ہے وہیں وہ دیوار کی وجہ سے کھڑی ہونے والی دیگر مشکلات کا بھی حوالہ دے رہے ہیں۔ کرفیو ہٹنے کے بعد ہی بستی کو ہندوؤں اور مسلمانوں میں تقسیم کردینے اوراس بیچ میں دیوار کھڑی کردینے پر سوال اٹھاتے ہوئے خبر رساں ایجنسی آئی اے این ایس سے گفتگو کرتے ہوئے درِّعبدالحسین   نے سوال کیا کہ ’’یہ سماج کے دو طبقات میں دشمنی ختم کرنے کا صحیح طریقہ کیسے ہوسکتاہے؟‘‘وہ ۸؍ مہینے سےا س علاقے میں مقیم ہیں۔ انتظامیہ کی حرکت پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’اس سے تو دشمنیاں  اور دوریاں  اور بڑھیں گی۔ دیوار کھڑی کرنے سے قبل انتظامیہ کو اس کے نتائج پر غور کرنا چاہئے تھا۔ اس دیوار کی وجہ سے خشخاش واڑی   کے لوگوں کو جو پریشانی ہورہی ہے اسے اب کون حل کریگا؟‘‘ انہوں نے نشاندہی کی کہ دیوار کی تعمیر کی وجہ سے مسلم اکثریتی علاقہ شہری اور ایمرجنسی خدمات سے محروم ہوگیا ہے۔ان کے گھروں  کو آنے والی سیدھی سڑک اب بلاک ہوگئی ہے اور لوگوں کو ابھی طویل تر متبادل راستہ استعمال کرنا پڑرہاہے۔
 نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے خشخاش واڑی میں  رہنے  والے محمد سعید خان  نے اس علاقے کے لوگوں کی پریشانی کیلئے انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ا نہوں  نے کہا کہ ’’اس دیوار کی وجہ سے دونوں طرف کے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑےگا۔ شدید بیماری یا ایمرجنسی کی صورت میں لوگوں کو فوری طور پر اسپتال پہنچانا مشکل ہوجائےگاکیوں جو راستہ سب سے آسان تھا وہ دیوار کی وجہ سے  بند ہوگیاہے۔‘‘مقامی افراد نے دیوار کی تعمیر کے خلاف کلکٹر  کے ہاں عرضی بھی دی اورانہیں  اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے بھی آگاہ کیا مگر کہیں کوئی شنوائی نہیں  ہوئی۔ مخالفت کے باوجود انتظامیہ نے دیوار کھڑی کردی۔ دوسری طرف زمیں دار محلے کے لوگوں کو دیوار کی تعمیر پر بہت زیادہ اعتراض  نہیں ہے۔ ایک خاتون نے دیوار کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسی راستے سے فسادی آئے تھے اورانہوں نے ہمارے گھروں پر پتھر برسائے تھے۔‘‘ ایک دوسرے شخص  نے کہا کہ ’’ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے، اس سے ہمیں سماج دشمن عناصر سے چھٹکارا مل جائےگا جو اُس طرف سے آتے تھے۔‘‘ 
 خشخاش  واڑی  کے علاوہ میانمار وٹھل مندر کے پاس  دوسری دیوار  اور بھٹ واڑی میں تیسری دیوار تعمیر کی گئی ہے۔ ا ن دیوروں کی تعمیر سے مسلم بستیوں کو سہولیات سے محروم کردیاگیاہے۔ مقامی افرادکے مطابق ان کے علاقوں کو کھلی جیل جیسا بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دیواروں کی ذمہ داری لینے کو انتظامیہ تیار نظر نہیں آرہاہے۔ نامہ نگاروں  نے جب ایڈیشنل کلکٹر جے ایس بھگیل سے رابطہ کیاتھا تو انہوں نے حیرت انگیز طور پر ایسی کسی دیوار کے وجود  سے ہی لاعلمی کااظہار کیا۔ان کے مطابق  ہفتے بھر قبل ہی انہوں نے کھرگون میں حالات کا جائزہ لینے کیلئے میٹنگ کی تھی مگر انہیں نہیں معلوم کہ ’’کہاں  اور کیوں‘‘ یہ دیواریں  تعمیر کی جارہی ہیں۔  البتہ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ایسا کوئی بھی فیصلہ غلط ہے۔ کلکٹر کمار پرشوتم سے رابطہ کی کوشش کی گئی مگر کامیابی نہیں ملی کیوں کہ وہ نجی    معاملات میں گھرے ہوئے تھے اور میڈیا سے گفتگو نہیں کر سکے۔

Khargone Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK