ناصر احمد نے’ ڈسکریٹ کوزین ٹرانسفارم ‘ کا فارمولا تیار کیا تھا جو آج تقریباً ہر ڈیجیٹل میڈیا اور ویب سائٹ میں استعمال ہو رہا ہے
EPAPER
Updated: April 30, 2022, 1:20 AM IST | Bangalore
ناصر احمد نے’ ڈسکریٹ کوزین ٹرانسفارم ‘ کا فارمولا تیار کیا تھا جو آج تقریباً ہر ڈیجیٹل میڈیا اور ویب سائٹ میں استعمال ہو رہا ہے
مسلم سائنسدانوں نے اپنے زریں دور میں جتنی دریافتیں اور ایجادات کی ہیں انہی کی بنیاد پر آج کی جدید دنیا کھڑی ہے،پھر چاہے وہ میڈیکل سائنس ہو یا انجینئرنگ یا پھر خلائی سائنس، سبھی میدانوں میں مسلم سائنسدانوں نے خدا کے عطا کردہ علم و تحقیق کا اپنی بساط بھر استعمال کیا اور اس پر تجربے کئے جن سے آج کی یہ دنیا روشن ہے۔اسی کڑی میں بنگلور سے تعلق رکھنے والے معروف سائنسداں ناصر احمد کا نام بھی جوڑا جاسکتا ہے جنہوں نے ۷۰ء کی دہائی میں وہ تھیوریز پیش کیں اور وہ تجربات کئے جن کی بنیاد پر آج کی ہماری ڈیجیٹل دنیا کھڑی ہے۔
۱۹۴۰ء میں بنگلور میں پیدا ہونے والے ناصر احمد نے ڈیجیٹل پیغامات جیسے ویڈیو ، آڈیو، وائس کال ، انٹر نیٹ کی ویب سائٹس ، سرچ انجن اور دیگر بہت سے ڈیجیٹل میڈیم میں استعمال ہونے والا بنیادی الگورتھم(مخصوص بنیادی فارمولہ جو کسی بھی طریق کار کی کامیابی کیلئے استعمال ہو تا ہے) پیش کیا تھا۔ انہوں نے یہ کام ۱۹۷۲ء میں ہی کرلیا تھا اور ۱۹۷۵ء کے بعد سے ان کے پیش کردہ الگورتھم پر مسلسل تحقیق ہو رہی تھی اور اسے لگاتار استعمال میں بھی لایا جا رہا تھا۔ اسی کی بنیاد پر آج گوگل کا اتنا بڑا سرچ انجن کھڑا ہے جبکہ فیس بک ، وہاٹس ایپ ، انسٹاگرام اور ایسے ہی دیگر سیکڑوںسوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل میڈیا میں جتنا انقلاب آیا ہے وہ اسی الگورتھم کی بنیاد پر آیا ہے ۔ انہی کے تیار کردہ فارمولے سے ویڈیو کال کرنا ممکن ہوا ہے ، بڑی بڑی ویڈیو ویب سائٹ جیسے یوٹیوب مسلسل ترقی کررہی ہیں اور اس میدان میں لگاتار نئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔
ناصر احمدکے بنائے گئے فارمولے پر ’ڈیجیٹل سگنل پروسیسنگ ‘ کی بنیاد رکھی ہوئی ہے جبکہ انہوں نے جو ایجاد کیا ہے اسے سائنسی زبان میں ’ڈسکریٹ کوزین ٹرانسفارم (ڈی سی ٹی ) کہا جاتا ہے ۔ یہ سائنس کا وہ فارمولا ہے جسے بنیاد بناکر سب سے پہلے میسیج بھیجے گئے ، پھر وائس کال کی باری آئی اور اب ویڈیو کال اور ویڈیو پیغامات عام ہو گئے ہیں۔ ناصر احمد ’نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا‘ کے مصداق اپنی دھن میں یہ تمام انقلابات مرتب کرتے جارہے تھے لیکن گزشتہ برس امریکی ٹی وی چینل پر آنے والے پروگرام ’دِس از یو ایس ‘ میں انہیں نہ صرف مدعو کیا گیا بلکہ ان کے کام کے بارے میں پورے امریکہ کو بتایا گیا۔ ساتھ ہی ان کا شکر بھی ادا کیا گیا کہ اگر وہ ڈیجیٹل دنیا کا بنیادی الگورتھم ایجاد نہیںکرتے تو لاک ڈائون کے دور میں امریکیوںسمیت پوری دنیا کے لئے مہینوں تک گھروں میں بغیر تفریح اور سوشل میڈیا کے قید رہنا مشکل ہو جاتا۔ انہوں نے اس بارے میں کہا کہ یہ الگورتھم تیار کرتے وقت انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ پوری دیجیٹل دنیا کی بنیاد بن جائے گا لیکن اب دیکھتا ہوں تو محسوس ہو تا ہے کہ نئی دنیا کی تخلیق کیلئے یہ بنیادی کام ہے۔ ناصر احمد کا تعلق بنگلور سے ہے۔انہوں نے یہاں سے ۱۹۶۱ء میں الیکٹریکل انجینئرنگ میں اپنی تعلیم مکمل کی اور پھر بہتر مواقع کے لئے امریکہ منتقل ہو گئے۔وہ کنساس اور منیسوٹا یونیورسٹیوں کے پروفیسر رہے ہیں جبکہ فی الوقت وہ نیو میکسیکو یونیورسٹی کے کمپیوٹر اورالیکٹریکل انجینئرنگ شعبے کےاعزازی سربراہ کے طور پر سرگرم ہیں۔ ان کی عمر ۸۲؍ سال ہو چکی ہے لیکن وہ اب بھی اپنے تحقیقی کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔