Inquilab Logo Happiest Places to Work

مین ہول کے ڈھکنوں کی چوری سے شہری انتظامیہ پریشان

Updated: September 26, 2023, 8:15 AM IST | Shahab Ansari | Mumbai

شہر کی سڑکوں پر مین ہول کے ڈھکنوں میں خود کار قفل لگانے پر غور، ۲؍ کمپنیوں نے بی ایم سی سے رابطہ قائم کیا۔ جلد ہی کوئی فیصلہ ہونے کا امکان۔

There have been many accidents due to theft of manhole covers.Photo. INN
مین ہول کےڈھکن چوری ہو نے سے کئی حادثات بھی ہو چکے ہیں۔ تصویر:آئی این این

سڑکوں پر ’مین ہول‘ کے ڈھکن چوری ہونے سے پریشان بی ایم سی ان پر خود کار تالے لگانے کے تعلق سے غور کررہی ہے۔ اس تعلق سے ۲؍ کمپنیوں نے بی ایم سی سے رابطہ بھی قائم کیا ہے۔ موسم باراں میں مین ہول میں گرنے سے ہونے والی اموات اور لوگوں کے زخمی ہونے کا معاملہ بامبے ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے جس کی وجہ سے شہری انتظامیہ کو اس تعلق سے کئے جارہے حفاظتی انتظامات سے عدالت کو آگاہ کرنا ہے۔
واضح رہے کہ بامبے ہائی کورٹ میں رُجو ٹھکر نامی ایک خاتون وکیل نے سڑکوں پر بے انتہا گڑھوں کے خلاف چند برس قبل مفاد عامہ کی ایک عرضداشت داخل کی تھی۔ گزشتہ چند برسوں میں اس عرضداشت پر سماعت کے دوران مین ہول (بڑی گٹروں) کے ڈھکن نہ ہونے سے اس میں گر کر چند افراد کی موت اور زخمی ہونے کے واقعات بھی رونما ہو گئے جس کی وجہ سے اس موضوع پر بھی اسی پٹیشن کے ساتھ سماعت شروع ہوگئی۔ سماعت کے دوران عدالت عالیہ نے کئی مرتبہ شہری انتظامیہ کی  مین ہول کے ڈھکن چوری ہونے سے بچانے کیلئے مناسب انتظامات نہ کرنے پر سرزنش کی ہے اور گٹر کے اندر سے زنجیر لگانے یا مخصوص جالیوں کو ڈھکن کے اوپر لگانے جیسی تجاویز بھی دی ہیں۔
مین ہول سڑک کے درمیان ہوتے ہیں جن پر سے بھاری بھرم اور کئی ٹن وزنی گاڑیاں بھی گزرتی ہیں اس لئے ان کے ڈھکن مضبوط ہونا ضروری ہے۔ عام طور پر نشہ کے عادی افراد یا دیگر چور آسانی سے پیسہ حاصل کرنے کے چکر میں دھات کے بنے وزنی ڈھکنوں کو چوری کرکے بھنگار میں معمولی قیمت پر فروخت کردیتے ہیں۔ متعدد معاملات میں ڈھکن غائب ہوجانے کے بعد شہری انتظامیہ فوری طور پر نئے ڈھکن نہیں لگاتا جس کی وجہ سے لوگ گٹر میں گرکر زخمی ہو جاتے ہیں اور کچھ معاملات میں جان بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔
مین ہول کے ڈھکن غائب ہونے سے عوام کو ہونے والی تکلیف کی بنیاد پر ہائی کورٹ نے سخت رویہ اختیار کیا ہوا ہے اور عدالت کے دبائو کی وجہ سے بی ایم سی ان ڈھکنوں کو چوری ہونے سے بچانے کیلئے مختلف حل تلاش کررہی ہے جس میں سے ایک تجویز یہ بھی زیر غور ہے کہ کیا ان ڈھکنوں پر تالے لگائے جاسکتے ہیں؟ اس پر ماہرین سے تبادلہ خیال اور اس کام کا تجربہ رکھنے والی کمپنیوں سے بی ایم سی رابطہ میں ہے اور جلد ہی اس پر کوئی فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔اس سلسلے میں شہری انتظامیہ کے صاف صفائی کے محکمہ کے افسران کو بھی اطلاع دی گئی ہے اور یہ بھی اندازہ لگایا جارہا ہے کہ خود کار قفل لگانے پر کتنا خرچ آسکتا ہے۔
شہر و مضافات میں ایک لاکھ سے زائد مین ہول ہیں۔ ان میں سے ۷۴؍ہزار سے زائد مین ہول بی ایم سی کے صاف صفائی محکمہ کے زیر اہتمام آتے ہیں جبکہ پانی سپلائی کی لائن پر ۲۵؍ہزار سے زائد مقامات پر مین ہول ہیں۔ اس سال جون میں اس پٹیشن پر سماعت کے دوران ہائی کورٹ کو اطلاع دی گئی تھی کہ ۷۴؍ہزار مین ہول میں سے ۱۹۰۸؍ پر جالیاں لگائی گئی ہیں۔ یہ تمام ۱۹۰۸؍ مین ہول ان مقامات پر ہیں جہاں برسات میں اکثر سڑکوں پر پانی بھر جاتا ہے۔ اس اطلاع پر عدالت عالیہ نے باقی مین ہول پر ڈھکن چوری ہونے سے بچانے کیلئے جالیاں نہ لگانے پر ناراضگی بھی ظاہر کی تھی۔
اس دوران صاف صفائی محکمہ کی جانب سے اسٹین لیس اسٹیل، فائبر اور ڈکٹائیل آرئن کی بنی جالیوں کے ڈھکن تجرباتی طور پر لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تجرباتی طور پر تینوں دھات کے ۱۰۰۔ ۱۰۰؍ ڈھکن لگائے جائیں گے۔ البتہ ان جالیوں پر بی ایم سی کی مہر لگنے کے بعد ڈھکن لگانے کی کارروائی شروع ہوگی۔ اس کارروائی میں تقریباً ۴؍ سے ۵؍ ماہ کا عرصہ درکار ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK