درگاہ کے دیوان سید زین العابدین علی چشتی نے کہا کہ ہندو سینا کے صدر کا دعویٰ تاریخ سے بھی ثابت نہیں ہے، ہرولاس شاردا کی کتاب میں تو کوئی ٹھوس بات ہے ہی نہیں۔
EPAPER
Updated: November 30, 2024, 4:59 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai
درگاہ کے دیوان سید زین العابدین علی چشتی نے کہا کہ ہندو سینا کے صدر کا دعویٰ تاریخ سے بھی ثابت نہیں ہے، ہرولاس شاردا کی کتاب میں تو کوئی ٹھوس بات ہے ہی نہیں۔
پوری دنیا میں مشہور صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کی درگاہ میں شیو مندر ہونے کے مضحکہ خیز لیکن دل آزار دعوے پر ایک طرف جہاں خواجہ کے عقیدتمندوں میں شدید ناراضگی اور برہمی پائی جارہی ہے وہیں سیاسی طور پر بھی اس معاملے میں تمام لیڈران متحد ہوگئے ہیں اور ان کوششوں کی سختی سے مذمت کررہے ہیں۔ اس درمیان درگاہ کے دیوان سید زین العابدین علی چشتی نے ہندو سینا کے صدر کے دعوے اور عدالت میں داخل کی گئی پٹیشن کو پوری طرح خارج کرتے ہوئے اسے بے بنیاد، حقائق وشواہد اور تاریخی حوالوں کے بھی صریح منافی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایسا دعویٰ ہے کہ اس پر تاریخ میں بھی کوئی حوالہ نہیں ملے گا کیوں کہ خواجہ صاحب کی درگاہ گزشتہ ۸؍ سو سال سے زائد عرصے سے موجود ہے۔ اس دوران ایک مرتبہ بھی کسی نے ایسا دعویٰ کرنے کی ہمت نہیں کی لیکن اب فرقہ پرستوں کی ہمت بڑھ گئی ہے۔
واضح ہوکہ خواجہ اجمیری ؒ کی درگاہ میں نہ صرف مندر ہونے کا دعویٰ کیاگیا ہے بلکہ اس تعلق سے مقامی عدالت میں ایک عرضی داخل کی گئی ہے جسےحیرت انگیز طور پر مقامی عدالت نے سماعت کے لئے منظور بھی کرلیا ہےاورفریقین کونوٹس جاری کرکے ان سے جواب طلب کرلیا ہے۔ اس پٹیشن میں ہرولاس شاردا کی کتاب کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے جس پر عدالت نے غور نہیں کیا کہ اس میں کتنی سچائی ہے لیکن اس نے نوٹس ضرور جاری کردیا جس کی وجہ سے پورے ملک کے مسلمانوں اور خواجہ صاحب کے دیگر مذاہب میں موجود عقیدتمندوں میں تشویش اور غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ عدالت کے اس رویے اور ہندو سینا کی اس حر کت مذمت کی جارہی ہے۔
نمائندۂ انقلاب نے دیوان زین العابدین سے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ میں نےصحافیوں کے سامنے پہلے ہی اپنی بات رکھ دی ہے جو بالکل واضح ہے کہ مذکورہ دعویٰ مجرمانہ سازش ہے۔ اس کی وجہ سے ملک کا فرقہ وارانہ ماحول متاثر ہو گا اور کروڑوں عقیدتمندوں کی جو دل آزاری ہو گی وہ الگ۔ انہوں نے حکو متِ ہند اورسپریم کورٹ سے اس معاملے میں مداخلت کی اپیل کی اورملک میں امن وامان قائم رکھنے اوراس کے استحکام پر زور دیا۔ اجمیر درگاہ کے دیوان نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران ہرولاس شاردا کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اس کتاب میں کوئی ٹھوس بات یا دلیل نہ پیش کرتے ہوئے محض ’’ایسا کہا جاتا ہے‘‘ لکھا گیا ہے لیکن کوئی ثبوت نہیں پیش کیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہےکہ صاحبِ کتاب نے بھی کوئی ثبوت نہیں دیا بلکہ انہوں نے بھی محض سنی سنائی باتوں پر یقین کیا اور اسے بلاسوچے سمجھے درج کردیا۔ اسے کیسے بنیاد مانا جائے گا ؟
دیوان زین العابدین نےایک اہم وجہ بتاتے ہوئے مزید کہاکہ مندر ہونے کے دعوے میں اس لئے بھی کوئی حقیقت یا سچائی نہیں ہے کیونکہ خواجہ صاحب کا مزار تقریباً ۱۵۰؍سال تک کچا تھا اوریہاں میدان ہوا کرتا تھا۔ اس لئے اس کے نیچے مندرہونے کا امکان تو بالکل نہیں ہے ۔ دیوان زین العابدین نے مزید کہاکہ ہندو سینا کے صدر وشنو گپتا نے مندر ہونے کا جو شوشہ چھوڑا ہے اور عدالت سے رجوع کیا ہے تو موصوف گپتا ایسی ہی چیزوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان کا مقصد اختلافات کو ہوا دینا اورکسی نہ کسی انداز میںسستی شہرت حاصل کرتے ہوئےسرخیوں میں برقرار رہنا ہوتاہے۔ اس لئے ان کے بھی رول کی جانچ ہونی چاہئے۔ اخیر میں دیوان صاحب نےیہ بھی کہا کہ حیرت انگیز طور پر خواجہ غریب نواز کی نسل سے تعلق رکھنے والے کو بھی اس معاملے میں فریق نہیں بنایا گیا ہے جبکہ عدالت کی جانب سے فریقین کو نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ابھی حالانکہ باضابطہ نوٹس جاری نہیں کیا گیا ہےاس کےباوجود جان بوجھ کر ماحول خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسی کوششوں سے ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔