Inquilab Logo

بی بی سی کی دستاویزی فلم پر پابندی کامطالبہ درست لیکن گوڈسے کی فلم پر بھی پابندی لگنی چاہئے

Updated: January 31, 2023, 11:02 AM IST | new Delhi

برطانوی سرزمین پر بنائی گئی ایک دستاویزی فلم ان دنوں ہندوستانی حکومت کو بے چین کر رہی ہے۔ایک طرح سے اس کی بے چینی مناسب بھی ہے کہ اس دستاویزی فلم میں جس کردار کو مرکز میں رکھا گیاہے، وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں۔

A scene from the Gujarat riots (file photo)
گجرات فساد کا ایک منظر (فائل فوٹو)

برطانوی سرزمین پر بنائی گئی ایک دستاویزی فلم ان دنوں ہندوستانی حکومت کو بے چین کر رہی ہے۔ایک طرح سے اس کی بے چینی  مناسب بھی ہے کہ اس دستاویزی فلم میں جس کردار کو  مرکز  میں رکھا گیاہے، وہ ملک کے وزیر اعظم  ہیں۔دستاویزی فلم، عام فلموں سے تھوڑی مختلف ہوتی ہے کیونکہ اس کی کہانی میں تفریح ​​اور فکشن کےبجائے سچائی بیان کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ ایسے میں اگر اس دستاویزی فلم سے یہ پیغام اُبھرتا ہے کہ جس وقت گجرات میں فسادات ہو رہے تھے،  بطور وزیر اعلیٰ نریندر مودی جان بوجھ کر اپنی پولیس کو غیر فعال رکھے ہوئے تھے، تو یہ انتہائی قابل اعتراض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی حکومت نے اس فلم کی مخالفت کی ہے اور اسے ایک خاص پروپیگنڈے کے ساتھ پیش کرنے کاالزام عائد کیا ہے۔
دستاویزی فلم پر پابندی کا مطالبہ کیوں نہیں؟
 ایسے میں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت میں ہندوستانی حکومت نے برطانوی حکومت سے’انڈیا: دی مودی کویش چن‘ کے ٹیلی کاسٹ کو روکنے یا اس پر پابندی لگانے کیلئے کیوں نہیں کہا؟ ایسا کرنا شاید سفارتی طور پر غلط ہوتا۔ اگر برطانیہ اس مطالبے پر توجہ نہیں دیتا تو دونوں ممالک کے تعلقات میں تلخی آ سکتی تھی۔ حالانکہ برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے ایوان میں کھل کر کہا کہ وہ مذکورہ ڈاکیومینٹری میں نریندر مودی کی  پیش کی گئی شبیہ سے اتفاق نہیں کرتے۔
 ویسے یہ مسئلہ صحافت کی آزادی سے بھی جڑا ہوا ہے۔ بی بی سی دنیا کا  ایک معتبر میڈیا ہاؤس ہے۔ اس کے کام کرنے کے طریقے ایسے نہیں ہیں کہ اسے قانونی نقطہ نظر سے آسانی سے غلط قرار دیا جا سکے۔ اسلئے برطانوی حکومت کیلئے بی بی سی کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کرنا آسان نہیں ہے۔
گوڈسے پرفلم کیوں کرریلیز کی گئی؟
 اس تعلق سےایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ جب ہندوستان خود اپنے ہی ملک میں بابائے قوم کے قاتل کی قصیدہ خوانی کرنے والی فلم کو روک نہیں رہا ہے تو اسے کیا حق ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک سے کسی صحافتی مواد کو روکنے کا مطالبہ کرے؟ فلم کوئی صحافت نہیں ہے....  بلکہ یہ فلمیں تفریح ​​کے زمرے میں آتی ہیں۔ فلم سنسر بورڈ کسی بھی فلم کو فحاشی، جرم، نفرت اور تعصب پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا۔اس کے باوجود، اُس فلم پر روک لگانے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں گئی جو ناتھو رام گوڈسے کی تعریف کرتی ہو اور مہاتما  گاندھی کو موردِ الزام ٹھہراتی ہو۔ بی بی سی کی دستاویزی فلم میں جو بات کہی گئی ہے اس کی بنیاد ایک سفارت کار کی ڈائری ہے۔ گجرات فسادات کی تحقیقات کی سماعت کے دوران خود سپریم کورٹ نے بھی کہا تھا کہ ’’گجرات جل رہا تھا، نیرو بانسری بجا رہا تھا۔‘‘ بانسری بجانے کا مطلب لاپروائی اور بے فکری ہے۔ مگر ابھی گجرات کے حالیہ اسمبلی انتخابات کے دوران، مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے’بانسری بجانے‘ کے بجائے’سبق سکھانے‘ کا جملہ استعمال کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ۲۰۰۲ء میں ہم نے ایسا سبق سکھایا کہ ۲۰؍ سال بعد بھی اب وہ گردن اٹھانے سے قاصر ہیں۔ بولنے کا انداز ایسا ہے کہ پیغام بھی پہنچ جائے اور بچنے کا راستہ بھی موجود ہو۔ہندوستانی وزارت خارجہ نے بی بی سی کی فلم کو ایک مخصوص ایجنڈے کا حصہ قرار دیتے ہوئے اسے نوآبادیاتی سوچ بھی قرار دیا۔ چونکہ ہندوستان، انگلستان کی کالونی رہا ہے، اسلئے یہاں لفظ ’نوآبادیاتی‘ کی خاص اہمیت ہے۔اتفاق سے انگلینڈ کے وزیر اعظم رشی سونک ہندوستانی نژاد ہیں، اسلئے  وہ ہندوستان کے حق میں کھڑ ہیں لیکن لفظ ’نوآبادیاتی‘کا استعمال،ان کیلئے پریشانی میں اضافہ کرتا ہے۔
بلاشبہ ہندوستان کی ساکھ اہم ہے
 ہندوستان کی حکمراں جماعت بی جے پی کیلئے مشکل یہ ہے کہ اسے موجودہ وزیر اعظم کی ساکھ کا  خیال تو رہتا ہے لیکن  وہ ملک کے سابق وزرائے اعظم کی ساکھ کی  پروا نہیں کرتی ہے۔ خود وزیر اعظم مودی بھی سابق وزرائے اعظم پنڈت  نہرو، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اور منموہن سنگھ پر قابل اعتراض تبصرے کرتے رہے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے اس بات کو بھلادیا جاتا ہے کہ ملک کی ساکھ سب سے اہم ہے۔معاملہ اس وقت سنگین ہو جاتا ہے جب سزائے موت پانے والے ناتھورام گوڈسے کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں، اس پر فلمیں بنتی ہیں اور یہ سب آرام سے ہونے دیا جاتا ہے۔سرکاری رپورٹ کے مطابق گجرات فسادات کے دوران ایک ہزار سے زیادہ جانیں گئی تھیں۔ مودی حکومت فسادات کو روکنے میں بری طرح ناکام رہی تھی۔ اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو راج دھرم کی یاد بھی دلائی تھی۔ یہی نہیں۲۰۰۴ء کے عام انتخابات میں جب بی جے پی ہار گئی تھی تو اٹل بہاری واجپائی نے کہا تھا کہ اگر وہ گجرات فسادات میں وقت پر صحیح فیصلے لئے ہوتے تو نتائج مختلف ہوتے۔ ان حقائق کو بھلا کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے؟
بلقیس بانو کے مجرم چھوٹ گئے
 جن مجرموں نے بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی تھی اور سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی بیٹی کو اس کے سامنے ہی پتھر سے کچل کر موت کے منہ میں پہنچا دیا تھا اور اس کے خاندان کے دیگر افراد کو بھی قتل کردیا تھا، ان سفاک مجرمین کو بھی مودی حکومت کے دور میں’اچھے کردار‘ کی بنیاد پر معافی دی گئی ہے۔ سزا یافتہ مجرموں کو’اچھے کردار‘ کا سرٹیفکیٹ دینے والے پینل کے ایک رکن کوایم ایل اے بنانے کا سہرا بھی بی جے پی کے سر جاتا ہے۔ گجرات فساد کے بدنام زمانہ ’نرودا پاٹیا قتل عام‘ ایک مجرم کی بیٹی کو بھی بی جے پی نے اسمبلی پہنچنے کا موقع فراہم کیا ہے۔گجرات کے فسادات کو ملک فراموش نہیںکر سکتا۔ مودی گجرات الزامات سے بری ہو چکے ہیں، یہ ان کیلئے ذاتی اطمینان کی بات ہو سکتی ہے لیکن،گجرات فسادات سے متعلق سوالات مستقبل میں بھی اٹھتے رہیں گے۔ ایس آئی ٹی سے کلین چٹ ملنے کی بنیاد پر اِن سوالات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا گجرات فسادات کبھی نریندر مودی  کا پیچھا نہیں چھوڑے گا؟n
بشک

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK