Inquilab Logo Happiest Places to Work

چناؤ کے نتائج نے نفرت پھیلانے والوں کو ان کی جگہ بتا دی : عوامی رائے

Updated: June 05, 2024, 10:09 AM IST | Iqbal Ansari | Mumbai

 لوک سبھا کے انتخابات میں جو ووٹ الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں قید ہو گئے تھے ان وٹوں کی گنتی کا سلسلہ منگل کی صبح ۸؍ بجے سے شروع ہوا اور جیسے جیسے ووٹوں کی گنتی کے راؤنڈ آگے بڑھتے گئے ویسے ویسے نتائج سامنے آنے لگے۔

Party workers celebrating the success of their candidate. Photo: PTI
اپنے امیدوار کی کامیابی پر پارٹی ورکرس خوشی مناتے ہوئے۔ تصویر : پی ٹی آئی

 لوک سبھا کے انتخابات میں جو ووٹ الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں قید ہو گئے تھے ان وٹوں کی گنتی کا سلسلہ منگل کی صبح ۸؍ بجے سے شروع ہوا اور جیسے جیسے ووٹوں کی گنتی کے راؤنڈ آگے بڑھتے گئے ویسے ویسے نتائج سامنے آنے لگے۔ لوک سبھا کے تنائج میں انڈیا اتحاد کی اطمینان بخش سیٹیں ملنے پر ممبئی اور مضافات کے عام شہریوں نے اطمینان بلکہ خوشی کا اظہا ر کیا ہے کہ ۴۰۰؍پار کا دعویٰ کرنے والی بی جےپی کو۲۵۰؍ سیٹوں سے کم پر پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ ممبئی میں تولوک سبھا کی کل ۶؍ سیٹوں میں سے ۴؍ سیٹوں ہر مہا وکاس اگھاڑی نے قبضہ کیا جبکہ محض ایک سیٹ بی جے پی کے حصہ میں آئی۔ انتخابات کے نتائج پر نمائندۂ  انقلاب نے متعدد شہریوں سے بات چیت کی اور ان کے تاثرات معلوم کئے۔ گفتگو کے دوران شہریوں نے بتایا کہ عوام نے ہٹلر شاہی، نفرت پھیلانے والوں کے خلاف ووٹ دے کر انہیں ان کی جگہ بتائی ہے اور انڈیا اتحاد کو مضبوط کیا ہے۔ شہریوں نے انڈیااتحاد کی کار کردگی پر بھی اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے یہ بھی رائے ظاہر کی کہ ملک میں اگر انڈیا اتحاد کی حکومت نہیں بھی بنی تب بھی مضبوط اپوزیشن ضرور بنے گی جو ملک کی جمہوریت بچانے، نفرت پھیلانے والوں پر لگام کسنے، بے روزگاری کو کم کرنے اور مظلوموں پر ہونے والے ظلم کو کم کرنے میں اہم رول ادا کرے گی۔ 

یہ بھی پڑھئے: طلسم ٹوٹا، روشنی ہوئی، اُمید جاگی، تبدیلی ٔ سیاست کی دستک ہوئی!

اس سلسلے میں ایڈوکیٹ حسن ملانی (سماجی خدمتگار ) سے رابطہ قائم کرنے پرانہوں نے بتا یا کہ ’’ جس طرح عوام میں مودی اور بی جےپی کے تئیں غصہ تھا اور جس طرح انڈیا اتحاد نے عوامی مسائل کو الیکشن میں پیش کیا اس سے توقع تھی کہ بی جے پی کو منہ کی کھانی پڑے گی اور ویسے ہی نتائج نظر آئے۔ عوام مودی کے ذریعے ۲۰۱۶ء میں کی گئی نوٹ بندی کو نہیں بھولی، وہ یہ بھی نہیں بھولے کہ کس طرح کورونا میں بدنظمی کے سبب عوام کو پریشانیوں کاسامنا کرنا پڑا تھااور لوگوں کی اموات ہوئیں اور گنگا میں لاشیں بہتی دیکھی گئیں، عوام نے یہ بھی دیکھا تھاکہ کس طرح سیاسی بانڈ دے کر بڑے بڑے ٹھیکے لئے گئے، کس طرح ایک گھڑی بنانے والی کمپنی کو بریج بنانے کا کنٹریکٹ دیا گیا۔ انڈیا اتحاد کے لیڈروں نے بھی چناؤ میں مہنگائی، بے روزگاری اور نفرت بڑھانے کے بی جے پی کے رویہ کو مسترد کیا ہے۔ ۴۰۰؍ پار کا نعرہ دینے والی بی جے پی کو تقریباً ۲۵۰؍ کے اندر روک دینا انڈیا اتحاد کی کامیابی ہے۔ ‘‘
 سابق ٹیچر نصیر خان الیکشن کے نتائج پر اپنے تاثرات دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’نتائج امید کے مطابق سامنے آئے ہیں۔ انڈیا اتحاد نے اپوزیشن کا بہترین رول ادا کرتے ہوئے چناؤ کو عوامی مسائل سے ہی باندھے رکھا، حالانکہ بی جے پی کی جانب سے فرقہ پرستی اور نفرت پھیلانے کی کوشش کی گئی لیکن اپوزیشن کے لیڈروں نے بار بار عوام میں جا کر انہیں اس کا احساس دلایا کہ بی جے پی اور مہایوتی عوام مخالف ہے۔ رسوئی گیس سلنڈر کی بڑھتی قیمتیں، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے اہم مدعوں سے عوام کا ذہن ہٹانے کیلئے اشتعال انگیز بیانات دیئے گئے تھے لیکن انڈیا اتحاد نے عوام کو بی جے پی کے جھانسے میں آنے نہیں دیا اور ملک کےآئین و جمہوریت کے تحفظ کیلئےووٹ کرنے کی اپیل کرتے رہے اورعوام نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس رزلٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ اب عوام فرقہ پرستی اور نفرت کو جگہ نہیں دیں گے۔ ‘‘
 سیلون چلانے والے شانو سلمانی نے کہا کہ ’’چناؤ کے نتائج سے یہ محسوس ہوا کہ علمائے کرام، ملی تنظیموں نے ملک کے آئین کو بچانے اور فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار سے دور رکھنے کیلئے جو اپیل کی تھی وہ کارگر ثابت ہوئی۔ مسلمانوں خصوصاً خواتین نے بہترین حکمت عملی اور جوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے ووٹنگ کی تھی جو اپوزیشن کی کامیابی کا سبب بنی۔ انڈیا اتحاد ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر سامنے آیا ہے اس میں راہل گاندھی کی بھارت جوڑو نیا یاترا سے بھی چناؤ میں بہت مثبت فرق پڑا ہے۔ 
 آٹو رکشا ڈرائیورسلیم احمد ( ملاڈ) نے بتایاکہ ’’ مودی اور بی جے پی کے دور اقتدار میں غریبوں پر مہنگائی اور بے روزگاری کا بوجھ ڈالا جارہا تھا اور امیروں کو تمام سہولتیں مہیا کرائی جارہی تھیں۔ بی جے پی حکومت مرکز میں اقتدار میں آنے سے قبل رسوئی گیس سلنڈر کی قیمت ۳۹۰؍ روپے تھی جو کہ مودی کے دور اقتدار میں ۱۱۰۰؍ کے پار پہنچ گئی تھی۔ مہنگائی مسلسل بڑھتی ہی گئی اور روز گار کے مواقع بڑھے اور نہ ہی تنخواہوں میں اضافہ ہوا۔ جب مہنگائی بڑھے گی اور آمدنی نہیں بڑھے گی تو لوگ کیسے جیئے گئے اور اس لئے اس مرتبہ عوام نے مہنگائی بڑھنے اور غریب مخالف پالیسیاں بنانے والی بی جے پی حکومت کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہاکہ ’’ مَیں اتر پردیش سے تعلق رکھتا ہوں اور ہر مرتبہ الیکشن میں وہاں جاکر ووٹ دیتا ہوں، اس مرتبہ بھی مَیں نے مہنگائی کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ ‘‘
 راجستھان سے تعلق رکھنے والے ایک چائے فروش مہاراج نے بات چیت پر بتایاکہ ’’ سرکار کسی کی بھی آئے لیکن چائے کی پتی، دال، چاول، رسوئی گیس اور اسی طرح معمولات زندگی کی اشیا کی قیمتیں کم ہونی چاہئے تب سمجھیں گے کہ غریبوں کی سرکار آئی ہے، ورنہ غریبوں کو کیافرق پڑتا ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK