Inquilab Logo

پاکستان کیساتھ ایف ۱۶؍ کا سود ا، ہندوستان کیلئے پیغام نہیں ہے

Updated: September 24, 2022, 11:39 AM IST | Agency | Washington

حکومت ہند کےاعتراض پر امریکہ کی وضاحت، واشنگٹن کے مطابق اسلام آباد کو جنگی طیارے دہشت گردی سے لڑنے کیلئے دیئے گئے ہیں، اس کا روس کے ساتھ ہندوستان کی دوستی سے کوئی تعلق نہیں ہے

US President Joe Biden with Prime Minister Narendra Modi.Picture:INN
امریکی صدر جو بائیڈن وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ۔ تصویر:آئی این این

کچھ ہی عرصہ ہوا ہے جب امریکہ نے پاکستان کو  ایف ۱۶؍ جنگی طیارے دینے کا اعلان کیا تھا جس پر ہندوستان نے اعتراض ظاہر کیا تھا۔ اب امریکہ نے  پاکستان کو ایف ۱۶؍ طیارے دینے پر اپنی جانب سے وضاحت کی ہے۔   امریکہ نے کہا ہے کہ اس سودے کوروس سے تعلقات کے تناظر میں نئی دلی کیلئے ایک پیغام نہ سمجھا جائے۔ واضح رہے کہ امریکی ڈیفنس سیکوریٹی کوآپریشن ایجنسی نے حال ہی میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس معاہدے کے تحت پاکستان کے پاس پہلے سے موجود   ایف ۱۶؍طیاروں کی مرمت کی جائے گی اور اس سے متعلق ساز و سامان بھی دیا جائے گا تاہم اس میں ہتھیار شامل نہیں ہوں گے۔ بیان کے مطابق اس سے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جاری مہم میں مدد ملے گی۔ تاہم امریکہ کا کہنا تھا کہ اس  سودے سے خطے کا فوجی توازن متاثر نہیں ہو گا۔ہندوستان کا اعتراض اور امریکی ردعمل کے تعلق سے انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ میں شائع خبر کے مطابق امریکی وزارت دفاع میں انڈو پیسیفک سیکوریٹی امور کے اسسٹنٹ سیکریٹری ایلی ریٹنر نے چند مخصوص میڈیا تنظیموں کے نمائندوں اور تھنک ٹینک سے گفتگو میں کہا کہ اس سودے کو ہندوستان اور روس کے تعلقات سے نہ جوڑا جائے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان کو اس معاہدے سے پہلے اور اس کے دوران اس ڈیل کی بابت تمام معلومات فراہم کی گئی تھیں۔اخبار کے مطابق ایلی ریٹنر نے کہا کہ امریکی حکومت کا یہ فیصلہ پاکستان کے ساتھ دفاعی شراکت داری کو بڑھانے کیلئے کیا گیا ہے جس میں بنیادی طور پر دہشت گردی اور جوہری سلامتی پر توجہ دی گئی ہے۔انھوں نے کہا کہ’ ’ہم نے اعلان سے پہلے ہندوستان کو معاہدے کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔ میں نے اپنے دہلی کے دورے کے دوران بھی اس بارے میں بات کی تھی۔‘‘ریٹنر نے کہا کہ وہ  ہندوستان کے ساتھ اس معاملے میں شفافیت رکھنا چاہتے ہیں، اس لئے انھیں اس معاہدے کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔   میڈیا رپورٹ کے مطابق ہندوستان نے پاکستان کے ساتھ  ایف ۱۶؍طیاروں کے حوالے سے معاہدے پر سخت اعتراض ظاہر کیا تھا۔ انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ کے مطابق امریکی اہلکار ڈونالڈ لو گزشتہ دنوں ہندوستان  کے دورے پر تھے اور اس دوران وزارت خارجہ نے  ان  کے سامنے اس تعلق سے کئی بار اعتراض ظاہر کیا۔اخبار نے اپنی رپورٹ میں لکھاہے کہ حکام نے ڈونالڈ لو کے ساتھ ہر دو طرفہ ملاقات کے دوران یہ مسئلہ اٹھایا۔ ڈونالڈ لو کواڈ کے سینئر افسران کی میٹنگ میں شرکت کیلئے دہلی آئے تھے۔تب ہندوستان نے پاکستان کو ایف ۱۶؍ کیلئے فراہم کی جانے والی تکنیکی مدد پر تشویش کا اظہار کیا تھا ۔ جہاں پاکستان یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ یہ مدد انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے ضروری ہے، وہیں حکومت ہند کا الزام ہے کہ پاکستان اس کا استعمال اس کے خلاف کرے گا۔  یاد رہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان ہوئے اس معاہدے کا اطلاق پہلے سے فروخت شدہ ایف ۱۶؍ طیاروں کی مرمت یا دیکھ بھال پر ہو گا تاکہ طیارے پرواز کی حالت میں رہیں۔امریکہ کے مطابق پاکستان نے اس کیلئے امریکہ سے درخواست کی تھی۔معاہدے کے مطابق ایف ۱۶؍ کے انجن میں ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر میں تبدیلیاں کی جائیں گی اور انجن کی مرمت اور ضرورت کے مطابق نئے پرزوں کی تبدیلی سے ہو گی۔جنگجو طیاروں کیلئے امدادی سازو سامان فراہم کیا جائے گا۔بیان کے مطابق یہ معاہدہ تقریباً ۴۵۰؍ ملین ڈالرکا ہو گا اور لاک ہیڈ مارٹن نامی کمپنی اس معاہدے کو مکمل کرے گی۔ ۲۰۱۸ءمیں ڈونالڈ ٹرمپ نے، پاکستان کو دی جانے والی تین ارب ڈالر کی دفاعی امداد منسوخ کر دی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک جیسے گروپوں کو لگام دینے میں ناکام رہا ہے۔امریکہ نے پاکستان کے علاوہ بحرین، بلجیم، مصر، تائیوان، ہالینڈ، پولینڈ، پرتگال، تھائی لینڈ جیسے ممالک کو ایف ۱۶؍طیارے دیئے ہیں۔اس کے ساتھ ہی انھوں نے اپاچی ہیلی کاپٹر کیلئے ہندوستان کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے ساتھ اس کا ایک بڑا دفاعی پارٹنر شپ پروگرام بھی ہے۔اگر  اسلحے کی درآمد کا جائزہ لیا جائے توہندوستان امریکہ سے زیادہ اسلحہ روس سے خرید رہا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں حکومت ہند کی طرف سے امریکہ اور دیگر ممالک سے ہتھیاروں کی خریداری میں اضافہ ہوا ہے۔یاد رہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی میںہندوستان کا مقام اہم ہے، دونوں اہم معاملات میں شراکت دار ہیں، جی ۲۰؍، کواڈ، انڈو پیسفِک اکنامک فریم ورک جیسے فورمس میں ایک ساتھ ہیں۔ لیکن جنوبی ایشیائی خطے میںہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ایسی صورت میںامریکہ کے اس اقدام کو سفارتی طور پر دیکھنا ناگزیر ہے کیونکہ  امریکہ  اور پاکستان کے درمیان کسی قسم کا دفاعی معاہدہ اس کے حق  میں نہیں ہے۔ لیکن ماہرین اب یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا اس سےہندوستان اور امریکہ کے تعلقات متاثر ہوں گے؟ یاد رہے کہ ایک طرف جہاں یوکرین جنگ کے تعلق سے ہندوستان نے غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے ملک کے مفاد میں روس سے تیل خریدا، وہیں تو پاکستان نے بھی پوری طرح روس کا ساتھ دیا ایسی صورت میں امریکہ کا ہندوستان پر روس نوازی کا الزام ہی بے بنیاد ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK