ملزمین کےرشتہ داروںنے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ظلم اور نا انصافیوںکے ۱۹؍ سال بعد ہمیں اچھی خبر ملی ہے، سوال کیا کہ کیا جھوٹے کیس میں پھنسانے والوں کے خلاف بھی کوئی کارروائی ہوگی
EPAPER
Updated: July 21, 2025, 11:12 PM IST | Nadeem Asran | Mumbai
ملزمین کےرشتہ داروںنے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ظلم اور نا انصافیوںکے ۱۹؍ سال بعد ہمیں اچھی خبر ملی ہے، سوال کیا کہ کیا جھوٹے کیس میں پھنسانے والوں کے خلاف بھی کوئی کارروائی ہوگی
تقریباً ۲؍ دہائی سے سلسلہ وار ٹرین بم دھماکوں کے جرم میں قید ۱۱؍ نوجوانوں کو بامبے ہائی کورٹ کے ذریعہ پھانسی اور عمر قید جیسی سخت سزا سے بری کئے جانے اور ان پر لگائے گئے جھوٹے الزامات کو غیر قانونی قرار دیئے جانے پر اہل خانہ کا درد ایک بار پھر چھلک اٹھا ۔ انہوںنے جہاں عدالت کے فیصلہ اور اپنے ساتھ مسلسل ۱۹؍ برسوں سے ہونے والی نا انصافیوں ، زیادتیوں کے بعد اندھیری زندگی میں عدالت کے فیصلہ سے اجالا ہونے اور انصاف ملنے پر خوشی و مسرت کا اظہار کیا ۔ وہیں اہل خانہ نے سلسلہ وار ٹرین بم دھماکوں میں ہلاک ہونے اور زخمی ہونے والے متاثرین کیلئے بھی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہمیں ۱۹؍ سال بعد انصاف ملا ہے ، کیاجھوٹے کیس میں پھنسانے والوں خلاف کوئی کارروائی ہوگی اور کیا جھوٹی تفتیش کرنے والی ایجنسی اصل مجرمین کو گرفتار کرے گی اور متاثرین کو انصاف دلائے گی ۔ کیاوہ یہ بتا سکے گی کہ متاثرین کو انصاف کب ملے گا ؟۔‘‘
پھانسی کی سزا سے بری ہونے والے نوید حسین خان رشید کے بھائی ولید نے عدالت کے فیصلہ پر جمعیۃ علماء کے دفترمیں نامہ نگاروں کے روبرو اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ۱۹؍ سال کا درد چند منٹوں میں بیان کرنا مشکل ہے کیونکہ گرفتاری سے لے کر سزا ہونے تک اور جیل میں محروسین ۱۹؍ سال قید و بند صعوبتیں برداشت کرکے اُس جرم کی سزا کاٹتے رہے جو انہوں نے کیا ہی نہیں اور اہل خانہ ان کی رہائی اور بے گناہی ثابت کرنے کی پاداش میں تفتیشی ایجنسیوں کی ذلت ، تضحیک اور توہین کا نشانہ بنتے رہے ۔ عدالت کے اس فیصلہ سے ہمیں اور ہمارے بھائیوں کو نئی زندگی ملی ہے ۔ وہیں اس موقع پر بیباکی سے ہمارے کیس کی پیروی کرنے والے شاہد اعظمی کو اور جمعیۃ علماء قانونی امدادی کمیٹی کے مرحوم گلزار اعظمی ، جمعیت کے صدر مولانا ارشد مدنی اور مہاراشٹر جمعیۃ کے موجودہ صدر مولانا حلیم اللہ قاسمی کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ ہم سب اللہ رب العزت کے بعد ان کے شکر گزار ہیں ۔‘‘
گونڈی میں ۱۰x۱۵ ؍کے چھوٹے سے مکان میں رہنے والے اور عمر قید کی سزا کاٹنے والے محمد علی کے بیٹے محمد سہیل نے انقلاب سے بات چیت کے دوران کہا کہ ’’ ایک بیٹے کے باپ اور بھائی کی موت پر ان کا آخری دیدار نہ کر پانا ، ان کی مٹی میں شریک نہ ہونا ، ایسا زخم ہے جسے بھرا نہیں جاسکتا ۔جس وقت میرے والد کو گرفتار کیا گیا ، میری عمر ۱۱؍ سال تھی ، پرول پررہائی مانگی گئی وہ دی تو گئی لیکن اتنی سخت شرائط اور اتنی فیس رکھی گئی کہ ہم اسے پورا نہیں کر سکے ۔اس دوران میری والدہ اور ہم ۴؍ بھائی بہنوں نے مالی مشکلات اور تعلیمی نقصانات کے علاوہ پولیس کے جس ظلم و جبر کا سامنا کرتے رہے وہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ فیصلہ کے بعد بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ ۱۹؍ سال بعد ہمارے اندھیرے دلوں میں عدالت نے عدل و انصاف کی روشنی جلائی ہے ۔‘‘
سلسلہ وار بم دھماکوں میں ضمیر احمد جو ممبئی سینٹرل پر چابی بنا کر اپنے اہل خانہ کی کفالت کرتے تھے اورورلی میں اپنے بھائیوں کے ساتھ رہتے تھے ، کو دھماکوں کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا ۔عدالت کے فیصلہ پر ان کے بھائی شریف الرحمن نے انقلاب کو بتایا کہ ’’ میرا بھائی جھوٹے الزام میں ملوث کئے جانے کے سبب نہ صرف اپنے بیوی بچوں سے بچھڑ گیا بلکہ والدین کا آخری دیدار تک نہیں کر سکا ۔۲۰۱۵ء میں سزا سنائے جانے کے بعد ضمیر نے خود اپنی بیوی کو زندگی میں آگے بڑھنے اور اس سے قطع تعلق کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے طلاق دے دیا تھا۔ وہیں میرے والدین اپنے بچہ کی رہائی کی خواہش لئے ہوئے روتے بلکتے اس دنیا سے چل بسے ۔ اب ضمیر کو رہا تو کیا جا رہا ہے لیکن کیا اسے انصاف کہا جاسکتا ہے اور ان بے گناہوں کی رہائی کے بعد دھماکوں میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو انصاف ملے گا؟ ۔‘‘
ٹرینوں میں ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکوں کے الزام میں ڈاکٹر تنویز کو عمر قید کی سزا ملی تھی ۔ اپنے بھائی کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں پر اور عدالت کے فیصلہ پرمقصود انصاری نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’جس وقت ٹرینوں میں بم دھماکہ ہوا تھا میرا بھائی صابو صدیق میں ڈیوٹی انجام دے رہا تھا ۔تنویر کی گرفتاری کے وقت اس کی بیوی حمل سے تھی اور گرفتاری کے ۶؍ ماہ بعد بیٹی پیدا ہوئی تھی ۔وہ بچی چاہتے ہوئے بھی اپنے باپ کی شفقتوں اور محبتوں سے محروم رہی اور چاہ کر بھی ۱۹؍ برسوں میں کبھی اپنے باپ کے گلے نہیں لگ سکی ۔وہیں ہمارے والدین اپنے بیٹےاور اہل خانہ کے ساتھ ہونے والے ظلم کو برداشت کرتے اورتنویر کی رہائی کا انتظار کرتے اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔پرول پر رہائی کی درخواست کے باوجود تنویر کو والدین کے آخری سفر میں شریک ہونے کا موقع تک نہیں دیا گیا تھا ۔‘‘
واضح رہے کہ ۱۹؍ سال سے جو ۱۲؍ ملزمین انصاف کی جنگ لڑتے رہے تھےان میں پھانسی کی سزا پانے والے کمال احمد انصاری، محمد فیصل رحمن شیخ ، احتشام صدیقی، نوید حسین خان رشید اور سول انجینئر آصف بشیر خان شامل ہیں۔ اسی طرح عمر قید کی سزا پانے والوں میں ڈاکٹر تنویز احمد انصاری ، محمد شفیع شیخ ،محمد علی عالم ، محمد ساجد انصاری ، سافٹ ویئر انجینئر مزمل رحمن شیخ، سہیل محمود شیخ اور ضمیر رحمن شیخ شامل ہیں ۔