سماجی خدمت گاروں نے حکومت کے رویے پر سوال قائم کئے۔ کہا: ایجنسیوں اور افسران کی غلط تفتیش نے جہاں ۱۲؍ ملزمین کی زندگی کے قیمتی ۱۹؍سال برباد کئے وہیں دھماکوں میںفوت اورزخمی ہونے والوں کے اہل خانہ کوبھی مایوس کیا
EPAPER
Updated: July 24, 2025, 7:12 AM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai
سماجی خدمت گاروں نے حکومت کے رویے پر سوال قائم کئے۔ کہا: ایجنسیوں اور افسران کی غلط تفتیش نے جہاں ۱۲؍ ملزمین کی زندگی کے قیمتی ۱۹؍سال برباد کئے وہیں دھماکوں میںفوت اورزخمی ہونے والوں کے اہل خانہ کوبھی مایوس کیا
’’۲۰۰۶ء کےسلسلہ وار ٹرین بم دھماکو ں میں ہائی کورٹ کے ذریعے بری کئے جانے والوں کو معاوضہ ملنا چاہئے نہ کہ سپریم کورٹ میں ان کی رہائی کوچیلنج کیا جائے جیسا کہ ریاستی حکومت نے قدم اٹھایا اور فوری طور پر سپریم کورٹ میںگہار لگائی، جہاںآج شنوائی ہوگی۔‘‘ سماجی خدمت گاروں نے فرنویس حکومت کے رویے پر کئی سوال قائم کئے۔ کہاکہ ایجنسیوں اور افسران کی غلط تفتیش نے جہاں ۱۲؍ ملزمین کی زندگی کے قیمتی ۱۹؍سال برباد کئے وہیں دھماکوں میں فوت اورزخمی ہونے والوں کے اہل خانہ کومایوس بھی کیا ہے۔
’’حکومت کا رویہ مناسب نہیں ہے‘‘
معروف سماجی خدمت گار ٹیسٹا سیتلواد نے کہاکہ ’’ انصاف تو ملا مگر تاخیر سے ۔ میرے نزدیک یہ واقعی انصاف ہے ۔ ‘‘ انہو ں نےیہ بھی کہاکہ ’’ہونا تویہ چاہئے تھا کہ ریاستی حکومت غلط تفتیش کوقبول کرتی ،افسران کو موردِالزام ٹھہرایا جاتا اور۱۲؍ملزمین کی زندگی کے جو انتہائی بیش قیمت ۱۹؍سال برباد ہوئے اس کی تلافی کے لئے ان کو معاوضہ تو نہیںکہہ سکتے ، ہرجانہ ادا کرتی، وہ سپریم کورٹ بھاگی اوراس فیصلے کو چیلنج کردیا ۔حکومت کا یہ رویہ مناسب اس لئے نہیںہے کہ کشمیر ،کیرالااورملک کے دیگر حصوں میںایسی مثالیں موجود ہیں جہاں حکومتوں نےغلط تفتیش کومانا اورمتاثرین کو مالی راحت پہنچائی ۔ ‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’کیا کوئی اندازہ کرسکتاہے کہ بامبے ہائی کورٹ نے جس طرح اپنا تفصیلی فیصلہ دیا ،نچلی عدالتوں کے فیصلے کوخارج کردیا اور شواہد کے فقدان کے سبب سبھی کو باعزت بری کردیا، ایسے میں کوئی گنجائش رہ جاتی ہے کہ اس فیصلے کو چیلنج کیا جائے لیکن حیرت انگیزطور پرایسا کیا گیا ۔ اسی سے یہ سوال پیدا ہونا لاز می ہے کہ شاید اس طرح کے طرزعمل کے ذریعے ہندو مسلم طبقات کے درمیان خلیج کو بڑھاوادیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ کیا ان حالات میںکوئی اِس سے انکار کرسکتا ہے کہ اگریہ سب بری کردیئے گئے تو دھماکے کےحقیقی مجرم کہاں ہیں؟ گویا غلط تفتیش سے دھماکوں میں فوت اور زخمی ہونے والوں کے اہل خانہ کو بھی دھوکہ دیا گیا اور انہیںمایوس کیا گیاجو ۱۹؍سال سے انصاف کےمنتظر تھے، ان کی امیدوں پر بھی پانی پھر گیا ۔‘‘
’’معاوضہ مل بھی جائے تب بھی ادنیٰ بدل نہیں ہوسکتا ‘‘
معروف سماجی خدمتگار عظمیٰ ناہید نے کہاکہ ’’ بلاشبہ ۱۲؍ نوجوانوں کے قیمتی ۱۹؍سال برباد کرنے والو ںکا احتساب کیاجانا چاہئے ۔جنہیںقید وبند کی صعوبتوںسے گزارنے پرمجبورکیا گیا ، ان کی بھرپائی کی جانی چاہئے کیونکہ ان پر اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ جو کچھ کیا گیا، جن مصائب سے ان کوگزارا گیا اس کا تصور بھی محال ہے۔ اگر بالفرض معاوضہ مل بھی جائے جس کی امید تو نہیںہے،پھر بھی جن مشکلات کا انہوں نے سامنا کیا، کسی صورت اس کا ادنیٰ بدل بھی نہیںہوسکتا ۔‘‘
انہوں نے بھی اس کا اعادہ کیا ’’ یہ غلط اوریک رخی تفتیش کا نتیجہ تھا کہ ۱۲؍مسلم نوجوانو ں کو ماخوذ کیا گیا ، پھر انہیں قانونی مراحل سے گزارا گیا اورعمر قید و پھانسی کی سزائیںدی گئیں مگر جب بامبے ہائی کورٹ کے معزز ججوں نےاس کا باریکی سے جائزہ لیا تو عدالت نے دودھ کا دودھ ا ورپانی کا پانی کردیا مگر حیرت ہوتی ہے اس فیصلے کوقبول کرنے اور ایجنسیوں اورتفتیشی عملہ کو کٹہرے میںکھڑا کرنے کےبجائے حکومت سپریم کورٹ پہنچ گئی ،مگر امیدیہی ہے کہ یہاں بھی حکومت کی منہ کی کھانی پڑے گی۔‘‘
’’بری کئے جانے والوں کا سب کچھ لٹ گیا پھر بھی حکومت پیچھا چھوڑنے کوتیار نہیں‘‘
بے باک کلیکٹیو کی فعال رکن اورحقوق نسواں کیلئے سرگرم رہنے والی حسینہ خان نے کہاکہ ’’ ملزمین کے بری کئے جانے سے لے کرمہاراشٹر حکومت کا سپریم کورٹ میںفیصلے کوچیلنج کرنے تک کیا کہا جائے،آخر کہنے کے لئے کیا رہ جاتا ہے۔ ۱۹؍سال کا عرصہ، سوچئے زندگی کی بیش قیمت حصہ تباہ ہوگیااور ان کا سب کچھ چھن گیا ،بچا کیا ہے لیکن حکومت ِمہاراشٹراب بھی انہیںچھوڑنے کوتیار نہیںہے۔ یہی ہے ہندتوا کا اصل چہرہ۔ مہاراشٹر حکومت کے ذریعے فیصلے کوچیلنج کرنے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ عدالت کے فیصلے کا بھی انکار کیاجارہا ہے، یہی حکومت کی من ما نی ہے ۔‘‘ انہوں نےیہ بھی کہاکہ ’’ یقیناً معاوضہ ملنا چاہئے مگر کون دے گا ؟ کون آواز اٹھائے گا؟ اگر حکومت سے کوئی توقع رکھتا ہے تو اس سے بڑی شاید کوئی اوربھول نہ ہو کیونکہ حکومت نے توسپریم کورٹ جاکر اپنا اصلی چہرہ دکھا دیا۔کیا متاثرین یا ان کے اہل خانہ زبانیں کھولیں گے ، سوال ہی نہیںہے کیونکہ وہ اس قدر خائف ہیں کہ کچھ کہنے کوتیار نہیں۔‘‘ حسینہ خان نے مالیگاؤں دھماکوں کے متاثرین کے تعلق سے کہاکہ ’’ہم لوگ رہا ہونے والو ں سے ملنے گئے،اہل خانہ سے بھی ملاقات اور ان کی ذہن سازی کرنے کی کوشش کی کہ وہ حکومت سے معاوضہ طلب کریں لیکن ان کا جواب تھا کہ ہم چھوٹ گئے، یہی بہت ہے، معاوضہ مانگنے پرہمیں دوسرے کیس میںپھنسایا جاسکتا ہے۔اس لئے حکومت سے ایسی کوئی امید فضول ہے۔یہ بھی امید نہیں ہے کہ کوئی ان کی حمایت میں معاوضہ طلب کرنے کی ہمت کرے گا ؟‘‘