Inquilab Logo

ملک کےمعروف دینی تعلیمی ادارہ ندوۃ العلما ءکا افسران نے سروے کیا

Updated: September 16, 2022, 9:54 AM IST | Lucknow

یوپی میں مدارس کے سروے کے تحت ایس ڈی ایم کی قیادت میں ندوہ کا دورہ ،افسران اور ندوہ انتظامیہ دونوں مطمئن ، پانچ منزلہ لائبریری کا بھی جائزہ لیا

Government officials came to Naddoh for the survey along with the officials of the institution.
ندوہ میں سروے کیلئے آئے سرکاری افسران ادارہ کے ذمہ داران کے ساتھ ۔(تصویر: انقلاب )

یوپی کی راجدھانی لکھنؤواقع دنیا کے ممتاز دینی تعلیمی اداروں میں سے ایک ندوۃ العلماء کا سروے کرنے سرکاری انتظامیہ کی ٹیم پہنچی۔اس سروے ٹیم میں سب ڈویژنل مجسٹریٹ (ایس ڈی ایم)،ڈسٹرکٹ مائنارٹی افسر (ڈی ایم او) اورایڈیشنل بیسک ایجوکیشن ادھیکاری ( اے بی ایس اے) شامل تھے۔ادارہ کے سینئر عہدیداران نے افسران کو سرکاری خاکہ کے مطابق تمام اطلاعات فراہم کرائیں۔ندوہ کا قیام ، طلبا کی تعداد ، اساتذہ کی تعداد ، آمدنی کے ذرائع سمیت دیگر نکات کی افسران نے جانکاری مانگی ۔ ندوۃ العلماءانتظامیہ کے تعاون سے افسران مطمئن رہے  جبکہ  انہوں  نے بھی خاکہ میں د ئیے گئے سوالات پر ہی  سروے کو مرکوز رکھا۔ ڈیڑھ گھنٹے سے زائد وقت تک  یہ سرکاری ٹیم ندوۃ العلماءمیں موجود رہی۔ انہوں نے پانچ منزلہ لائبریری کا بھی معائنہ کیا۔ 
  واضح رہے کہ حکومت سے غیر تسلیم شدہ مدارس کے سروے کا حکم جاری کیا گیا ہے ۔اسی حکم کے تحت سروے کیلئے افسران پر مشتمل ٹیم صبح ۱۰؍بجے ندوۃ العلما ءپہنچی ، جہاں نائب مہتمم مولانا عبدالعزیز بھٹکلی اور مولانا کمال اختر ندوی نے ان کا خیر مقدم کیا اور مہمان خانہ میں بٹھایا ۔ افسران کی ٹیم میں ایس ڈی ایم نوین کمار ، ضلع اقلیتی افسرسون کمار اور اے بی ایس اے شامل تھے۔ ا ن کے سوالات کا جواب مذکورہ دونوں علماءکے علاوہ مجلس انتظامیہ کے ممبر ڈاکٹر شعیب قریشی اوراسماعیل بھولا نے د ئیے ۔ افسران نے حکومت کی جانب سے جاری بارہ نکاتی خاکہ کے اردگرہی سوالات  کئے ۔  
 سروے کے لئے ندوۃ العلما ءمیںعلماءکی ٹیم پہلے سے تشکیل دی جاچکی تھی جنہوں نےسروے کے ۱۲؍نکاتی سوالات کے جواب تحریری طور پر پہلے سےہی تیاررکھے تھے ۔سروے ٹیم کو یہی جواب سونپ دیاگیا۔ وہیں افسران نے موقع پر جو بھی سوال کئے ان کا بھی چاروں علماءنے جواب تشفی بخش طریقے سے دیا۔ مولانا کمال اختر ندوی نے بتایا کہ ندوۃ العلما ءکا قیام ۱۸۹۶ءمیںہوا تھا  ۔ ندوۃ العلماءکے ہی نام سے سوسائٹی ہے  جس کے تحت تعلیمی سلسلہ جاری ہے ۔ ندوہ میں موجودہ وقت میں ۲۴۱۰؍طلباء زیر تعلیم ہیں اور ۸۱؍اساتذہ کی ٹیم موجود ہے ۔ طلباء ندوہ کیمپس میں ہی قیام کرکے تعلیم حاصل کرتے ہیں، جس کیلئے کیمپس میں ۱۱؍ہاسٹل تعمیر کئے گئے ہیں۔

 طلبا کی تعلیم کے لئے ۵۰؍چھوٹے بڑے کلاس روم ہیں۔آمدنی کے ذرائع کے سوال پر انہوں نے بتایاکہ ندوہ کا مکمل خرچ عوامی چندے سے چلتا ہے ۔ سروے سے کسی طرح کی دقت کے سوال پر انہوں نے کہا کہ حکومت اگر کوئی جانکاری چاہتی ہے تو اسے فراہم کرانے میں ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے ۔مولانا کمال اختر ندوی نے بتایاکہ ندوۃ العلماءمیں اسلامی علوم پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے ، جیسے قرآن کی تفسیر ، حدیث ، فقہ وغیرہ ۔ اس کے علاوہ شروع سے آخر تک عصری تعلیم کے لئے انگریزی ، جغرافیہ ، ریاضی سمیت دیگر علوم این سی ای آر ٹی کورس کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے ۔ادارہ کی منظوری کے سوال پر انہوں نے کہاکہ ندوۃ العلما ءکا قیام اس دورمیں ہوا، جب آج کے موجودہ  بورڈ بنے بھی نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ڈگری کو ملک کی متعدد یونیورسٹیاں تسلیم کرتی ہیں ان میں لکھنؤ یونیورسٹی ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ سمیت دیگر شامل ہیں۔یہ پوچھنے پر کہ افسران نے دستاویز بھی طلب کئے ہیں ، انہوں نے بتایا کہ بیلنس شیٹ مانگی ہے ، جو ہمارے یہاں باقاعدگی سے ہرماہ بنتی ہے ، جس کو افسران کو دستیاب کرادایا گیا ہے ۔ 
 ڈی ایم اوسون کمار نے بتایاکہ سروے کے دوران ندوہ انتظامیہ نے مکمل تعاون کیا ہے ، جس سے ایس ڈی ایم اور اے بی ایس اے بھی مطمئن رہے ۔ سروے خاکہ میں پوچھے گئے سوالات کا مکمل اور اطمینان بخش جواب دیا گیا ہے ۔ سروے کے دوران نائب مہتمم مولانا عبدالعزیز بھٹکلی اور مولانا کمال اخترنے افسران کو ندوہ کی عالیشان پانچ منزلہ علامہ شبلی نعمانی لائبریری کا بھی معائنہ کرایا ۔  جن نکات پر سروے کیا گیا ان میں مدرسہ کا نام،سن قیام،مدرسہ کا نظام چلانے والی کمیٹی کا نام، زمین سے متعلق تفصیلات یعنی ذاتی ہے یا کرائے کی یا وقف ،مدرسہ کی عمارت میں طلبہ کے لئے رہائشی کمرے ، درسگاہیں ، استنجاخانے ، بجلی ، کھانے اور پانی کا انتظام کیسا ہے؟طلبہ واساتذہ کی تعداد، مدرسہ میں پڑھایا جانے والا نصاب ، مدرسہ کی آمدنی کے ذرائع ، مدرسہ میں داخل طلبہ کسی دوسرے تعلیمی ادارے سے منسلک ہیں یا نہیں؟ مدرسہ کسی غیر سرکاری تنظیم (این جی او)سےوابستہ ہے یا نہیں؟ بارہواں کالم افسران کی طرف سے تبصرہ کے لئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK