Inquilab Logo

اپوزیشن کو جے پی سی کے علاوہ کچھ بھی منظور نہیں

Updated: March 19, 2023, 11:23 AM IST | new Delhi

پارلیمنٹ کاتعطل ختم کرنےکیلئےگفتگو کی پیشکش پر جے رام رمیش کا دوٹوک جواب، ’’درمیانی راستہ‘‘ کے امکان کو خارج کیا، کہا : ۱۶؍ پارٹیوں کے اتحاد سے سرکار ڈ ر گئی ہے

Jairam Ramesh addressing the media with Rahul Gandhi in Delhi. (PTI)
جے رام رمیش دہلی میں راہل گاندھی کے ساتھ میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے۔ ( پی ٹی آئی)

بجٹ اجلاس کے دوسرے مرحلے کا پہلا ہفتہ پوری طرح ہنگاموں کی نذر  ہوجانے کےبعد آئندہ ہفتے بھی  پارلیمنٹ کا تعطل ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہاہے۔ سنیچر کو کانگریس کے میڈیا شعبے کے انچارج جے رام رمیش نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو دیئے گئے انٹرویو میں دوٹوک لہجے میں کہا کہ  اڈانی تنازع کی جانچ کیلئے جےپی سی کے قیام کے علاوہ اپوزیشن  کو اور کچھ بھی منظور نہیں ہے۔ انہوں  نے واضح کیا کہ اس سلسلے میں  کسی ’’درمیانی راستے‘‘ کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جے رام رمیش   کا یہ بیان اس  لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ جمعہ کو وزیر داخلہ امیت شاہ  نے کہا تھا کہ اگر اپوزیشن بات چیت کیلئے تیار ہوجائےتو پارلیمنٹ کے تعطل کے خاتمے کا راستہ نکالا جاسکتاہے۔ راہل گاندھی کے معاملے میں بھی انہوں  نے  فیصلہ کن انداز میں کہا کہ معافی مانگنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
حکومت اپوزیشن کے اتحاد سے خوفزدہ
 کانگریس ترجمان  نے الزام لگایا کہ اڈانی تنازع پر ۱۶؍ پارٹیوں  کے متحد ہوکر جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کا مطالبہ کرنے  سے حکومت خوفزدہ ہوگئی ہےاورا س نےا س کے خلاف ’’(حقائق کو) توڑو مروڑو، بدنام کرو اور دھیان بھٹکاؤ‘‘ کی سہ رخی مہم چھیڑ دی ہے۔اس سوال پر کہ  پارلیمنٹ کے موجودہ تعطل کو ختم کرنے کیلئے کیا کوئی درمیانی راستہ نکل سکتاہے؟ سابق مرکزی وزیر نے کہا کہ ’’مجھے کوئی درمیانی راستہ نظر نہیں آتا کیوں کہ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ جانچ کا ہمارا مطالبہ ایسا ہے کہ جس پر کوئی گفتگو ممکن ہی نہیں ہے۔‘‘
راہل کے معافی مانگنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا
  جے رام رمیش نے زور دے کر کہا کہ جہاں اپوزیشن  جے پی سی کے مطالبے پر ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں  ہے وہیں وہ  لندن میں دیئے گئے بیانات کیلئے  راہل  گاندھی کے معافی مانگنے کے حکومت  کے مطالبے کو بھی تسلیم نہیں کریگی۔  کانگریس ترجمان نے کہا کہ ’’اس (معافی مانگنے کا) سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘انہوں نے نشاندہی کی کہ ’’جے پی سی کے جائز  اور باجواز مطالبے سے توجہ ہٹانےکیلئے  بی جےپی معافی مانگنے پر اصرار کررہی ہے۔ معافی کس بات کی؟موجودہ وزیراعظم نے چین، جرمنی، جنوبی کوریا اور دیگر بین الاقوامی  پروگراموں  میں بار بار ہندوستان کی داخلی سیاسی معاملات کو اٹھایا ہےاور اپنے سیاسی مخالفین  پر تنقیدیں کی ہیں۔معافی تو انہیں مانگنی چاہئے، راہل گاندھی ملک میں جمہوریت کی موجودہ صورتحال سےبین الاقوامی برادری کو آگاہ کرنے پر کیوں کر معافی مانگیں؟‘‘
گفتگو کیلئےامیت شاہ کی پیشکش
  ہندوستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار  ہورہا ہے کہ حزب اقتدار خود پارلیمنٹ میں اس قدر ہنگامہ کررہاہے کہ ایوان کی کارروائی پیر سے جمعہ تک یومیہ  ۲۰؍ منٹ کے آس پاس ہی چل سکی ہے۔ اپوزیشن اڈانی تنازع پر جے پی سی کے مطالبے پر اٹل  ہے مگر  اس سے زیادہ شدت سے بی جےپی اوراس کی اتحادی پارٹیاں ’راہل گاندھی معافی مانگو‘ کے نعرے بلند کررہی ہیں۔ اس بیچ جمعہ کو انڈیا ٹودے کانکلیو میں وزیر داخلہ امیت شاہ نے  اس تعطل سے نکلنے کیلئے اپوزیشن کو ایک طرح سے گفتگو کی پیشکش کی۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’دونوں   فریق اسپیکر کے ساتھ بیٹھ جائیں اور گفتگو کرلیں۔ ‘‘ امیت شاہ نے کہا کہ ’’وہ دو قدم آگے آئیں، ہم بھی دوقدم آگے بڑھیں گے۔ اس طرح پارلیمنٹ کی کارروائی چلنے لگے گی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’اگر آپ صرف پریس کانفرنس ہی کرتے رہیںگے اور کچھ کریں  گے نہیں تو ایسا نہیں چلے گا۔‘‘ انہوں نےبتایا کہ ’’ہماری پیشکش کے باوجود اپوزیشن کی جانب سے گفتگو کی کوئی تجویز نہیں ہے۔ راہل گاندھی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے امیت شاہ نے اندرا گاندھی کا حوالہ دیا اور کہا کہ انہوں  نے بھی خانگی سیاسی معاملات پر بین الاقوامی  پلیٹ فارم پر گفتگو سے انکار کردیاتھا۔ 
جے رام رمیش نے راہل گاندھی کا دفاع کیا
  اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ راہل گاندھی نے لندن میں  ایسی کوئی بات نہیں کہی جس پر معافی مانگنے کی ضرورت پڑے، جے رام رمیش نے کہا کہ بی  جےپی کا یہ دعویٰ کہ راہل گاندھی نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کیلئے بیرونی ممالک سے مداخلت کی اپیل کی ہے، صریح جھوٹ ہے۔ا نہوں نے کہا کہ راہل گاندھی  نے جو کچھ بھی کہا ہے کہ وہ ریکارڈ پر موجود ہے، اس کے ویڈیو دستیاب ہیں ۔ 

congress Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK