مہاراشٹر کی فرنویس حکومت نے بہ عجلت ِتمام عرضی داخل کی جسے عدالت عظمیٰ نے ابتدائی تردد کےبعد قبول کرلیا ، کل سماعت
EPAPER
Updated: July 23, 2025, 12:28 PM IST | Shahab Ansari | Mumbai
مہاراشٹر کی فرنویس حکومت نے بہ عجلت ِتمام عرضی داخل کی جسے عدالت عظمیٰ نے ابتدائی تردد کےبعد قبول کرلیا ، کل سماعت
شہر کی لوکل ٹرینوں میں ۱۹؍ برس قبل ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکوں کے کیس سے تمام ملزمین کو بری کرنے کے بامبے ہائی کورٹ کے تاریخی فیصلے کو دوسرے ہی دن حکومت مہاراشٹر نے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔ اس عجلت کا بظاہر مقصد ملزمین کو جیل سے رِہا ہونے سے روکنا تھا لیکن فرنویس حکومت اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکی تاہم عدالت عظمیٰ نے اس عرضداشت کو سماعت کیلئے قبول کرلیا ہے جس پر جمعرات کو سماعت ہونے کا امکان ہے۔
سالیسٹر جنرل (ایس جی) تشار مہتا نے منگل کو ملک کے چیف جسٹس بی آر گوَئی، جسٹس کے ونود چندرن اور جسٹس این وی انجاریہ پر مشتمل سپریم کورٹ کی سہ رکنی بنچ کے روبرو ’اسپیشل لیو پٹیشن‘ (ایس ایل پی) کے ذریعہ بامبےہائی کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج کیا اور اس پر فوری سماعت کی درخواست کی۔ریاستی حکومت نے جسٹس انیل کلور اور جسٹس شیام چانڈک پر مشتمل بامبے ہائی کورٹ کی دورکنی بنچ کے ٹرین بم دھماکہ کیس کے تمام ملزمین کو بری کرنے کے فیصلہ کو چیلنج کیا ہے۔ حالانکہ اس پٹیشن کا متن اب تک عوام کے سامنے نہیں آیا ہے لیکن جب اسے ججوں کے سامنے پیش کیا گیا تو چیف جسٹس بی آر گوئی نے کہا کہ انہوں نے اخبارات میں پڑھا ہے کہ ۸؍ ملزمین جیل سے رہا کر دیئے گئے ہیں۔ اس پر ایس جی تشار مہتا نے کہا کہ اس کے باوجود کچھ ایسی اہم باتیں ہیں جن کی وجہ سے اس پر فوری سماعت کی ضرورت ہے۔ اس پر ججوں نے اس عرضداشت کو شنوائی کیلئے قبول کرلیا اور فوری سماعت کی درخواست کی وجہ سے جمعرات کو اس پر بحث سننے پر رضامندی ظاہر کردی۔
ٹرائل کورٹ اور پھر ہائی کورٹ میں اس کیس کے تمام ملزمین کا مقدمہ لڑنے والی جمعیۃ علماء (ارشد مدنی) مہاراشٹر کے صدر مولانا حلیم اللہ قاسمی سے جب انقلاب نے سپریم کورٹ میں مقدمہ پہنچنے کے تعلق سے گفتگو کی تو انہوں نے کہا کہ ’’جمعیۃ کا یہ طریقہ رہا ہے کہ اگر کوئی ملزم ہم سے رابطہ کرکے درخواست دیتا ہے کہ ہم اس کا مقدمہ لڑیں تب غورو خوض کے بعد اس درخواست پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اگر اس کیس کے ملزمین ہم سے سپریم کورٹ میں ان کی پیروی کرنے کی درخواست کرتے ہیں تو ہم اس پر مشورہ سے فیصلہ کریں گے۔‘‘
جمعیۃ علماء کی جانب سے ابتداء سے اس مقدمہ میں ملزمین کی پیروی کرنے والوں میں شامل ایڈوکیٹ شاہد ندیم سے جب انقلاب نے منگل کی شام گفتگو کی تو انہوں نے کہا کہ اس وقت تک تمام ملزمین اپنے گھروں کو پہنچے بھی نہیں تھے اور انہیں خبروں کے ذریعہ پتہ چل رہا ہے کہ حکومت نے ان کے بری کئے جانے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ’’عدلیہ کا اپنا نظام ہے جس کے تحت عدالت کا کام کاج ہوتا ہے۔ حکومت کی عرضداشت پر جب سپریم کورٹ میں سماعت ہوگی تو عدالت پہلے تمام ملزمین کو نوٹس جاری کرے گی جس کے ذریعہ ملزمین کو باقاعدہ طور پر ان سے متعلق فیصلہ کو چیلنج کئے جانے کی تصدیق ہوجائے گی اور تب وہ اپنے دفاع کیلئے وکلاء کا انتخاب کرنے کے اقدام کریں گے۔ چونکہ ہائی کورٹ کا فیصلہ آجانے کے بعد یہ کیس ختم ہوگیا ہے اس لئے فی الوقت ان کا کوئی وکیل نہیں ہے لیکن اگر یہ جمعیۃ سےرجوع ہوتے ہیں تو جمعیۃ وہاں بھی ان کا کیس لڑنے پر ضرور غور کرے گی۔‘‘
ایڈوکیٹ شاہدندیم کے مطابق حکومت کی عرضی کی کاپی فی الحال کسی کو نہیں ملی ہے لیکن بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ملزمین کی رہائی کو چیلنج کرنے کے ساتھ ہائی کورٹ کے فیصلہ پر اسٹے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملزمین کی رہائی کو روکنے کی بات پٹیشن میں موجود ہوگی اسی وجہ سے چیف جسٹس نے کہا تھا کہ انہوں نے اخبارات میں پڑھا ہے کہ اکثر ملزمین رہا ہوگئے ہیں۔ اگر رہائی کو روکنے کی عبوری درخواست کی گئی ہوگی تو ان کے رہا ہوجانے کی وجہ سے یہ درخواست ان معنوں میں تو بے اثر ہوگئی ہے۔
واضح رہے کہ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کئے جانے کی وجہ سے ملزمین کو دوبارہ جیل جانا پڑے لیکن ماضی میں اس کی نظیر ملتی ہے کہ کچھ بہت ہی کم معاملات میں فیصلہ کو چیلنج کئے جانے کی وجہ سے کسی ملزم کی بات سنے بغیر اس کی غیرموجودگی میں اس کی رہائی منسوخ کردی گئی ہو۔ تاہم ابتدائی مرحلہ میں پہلے ملزمین کو نوٹس جاری ہوتا ہے پھر انہیں اپنی بات رکھنے کا موقع دیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ اگرچہ یہ پٹیشن چیف کی بنچ کے سامنے پیش کی گئی تھی لیکن ضروری نہیں کہ وہی بنچ اس پر سماعت کرے اور جمعرات کو سماعت ہوہی جائے۔