Inquilab Logo Happiest Places to Work

وقف ترمیمی قانون پر سپریم کورٹ کے رُخ سے بھگوا خیمہ بُری طرح تلملا اٹھا

Updated: April 18, 2025, 11:34 PM IST | New Delhi

سوشل میڈیا پر طرح طرح کے میم کے ذریعہ عدالت کو نشانہ بنایاگیا،’’شریعہ کورٹ آف انڈیا‘‘ تک لکھ دیاگیا، ’آ پ‘ لیڈر سنجے سنگھ نے اِس کی مذمت کی

Aam Aadmi Party leader Sanjay Singh
عام آدمی پارٹی کے لیڈر سنجے سنگھ

پارلیمنٹ میں مودی حکومت کے ذریعہ اکثریت کے بَل پر  پاس کرائے گئے وقف ترمیمی قانون کے آئینی جواز پر سپریم کورٹ کے سخت سوالات نے ملک کے بھگوا خیمہ کو چراغ پا کردیا ہے۔  سوشل میڈیا پر اس خیمہ نے  ملک کی سب سے بڑی عدالت کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔کسی نے اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا نام لئے بغیر ’’شریعہ کورٹ آف انڈیا‘‘ لکھ دیا تو کسی نے سپریم کورٹ کی تصویر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے اس گنبد کو سبز کردیا ۔  عام آدمی پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ سنجے سنگھ نے اس پر برہمی ظاہر کرتےہوئے بی جے پی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔انہوںنے سپریم کورٹ کے بارے میں دائیں بازو کے انتہائی واہیات اور گالم گلوج پر مبنی پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے لکھا  ہے کہ مودی کے حامی سپریم کورٹ کو دھمکانے میں مصروف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بی جے پی آئین کو تسلیم کرتی ہے، نہ عدالت کو مانتی ہے۔ سنجے سنگھ نے عدالتی موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے وزیر اعظم مودی کے منصوبوں کو دھچکا پہنچا ہے۔ بی جے پی مذہبی جائدادوں پر قبضہ کرکے اس کو اپنے دوستوں کو دینا چاہتی ہے۔
سنجے سنگھ نے وہ پوسٹ بھی شیئر کئے ہیں جن  میں  سپریم کو برابھلا کہا جارہاہے۔ ایک پوسٹ میں دائیں  بازو کے ایک ٹرول ’مسٹر سنہا‘ نے’’ شریعہ کورٹ آف انڈیا‘‘ لکھا ہے جبکہ ایک دوسری پوسٹ میں سپریم کورٹ کے گنبد کو سبز رنگ میں دکھا کر اس چاند اور تارہ کی تصویر بنادی گئی۔ تنقید کی جارہی ہے کہ اگر یہی کام کسی مسلمان نے کیا ہوتا تو اب تک اس پوسٹ کوملک سے غداری قرار دے کر بڑے پیمانے پر کارروائی کا مطالبہ کیا جاتا۔ ایک یوزر نگیندر پانڈے نے دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ اکثریت مخالف ہوگئی اور اس کی طاقت اکثریت کے خلاف ہی کیوں چلتی ہے۔
 سی اے راجیو گپتانام کے ایک یوزر نے چیف جسٹس سنجیو کھنہ کو نشانہ بناتے ہوئےکہا کہ انہوںنے سبھی حدوں کو پار کرلیا، ان کا مواخذہ کیا جانا چاہئے۔ اسی یوزر نے چیف جسٹس  سے اس  بیان کو بھی شیئر کیا ہےکہ’’ انگریزوں کی حکومت سے قبل مسجدوں کو رجسٹر کرنے کا انتظام نہیں  تھا۔ بہت ساری مسجدیں تیرہویں، چودھویں اور ۱۵؍ ویں صدی میں تعمیر کی گئی۔ انہوں نے حکومت سے سوال کیا کہ آیا وہ چاہتی ہے کہ لوگ ان مسجد کے کاغذات دکھائیں۔‘‘سوشل میڈیا پر ایسے یوزر بھی ہیں جو عدلیہ کی حمایت کرتے ہوئے آئی ٹی سیل اور دائیں بازو  کے ٹرولس کومنہ توڑ جواب دے رہے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK