لوگ محتاط ہیں اور اس معاملے پر کھل کر کچھ کہنے سے گریز کرتے ہیں
EPAPER
Updated: November 21, 2025, 12:09 AM IST | Dadri
لوگ محتاط ہیں اور اس معاملے پر کھل کر کچھ کہنے سے گریز کرتے ہیں
محمد اخلاق کے ہجومی تشدد میں قتل کی وجہ سے سرخیوں میں رہنے والا دادری کا بساڈہ گائوںکی فضا آج بھی خاموش ہے ۔اتر پردیش حکومت نے۲۰۱۵ءکے ماب لنچنگ (ہجومی تشدد) کیس میں نامزدتمام ۱۸؍ ملزمین کے خلاف مقدمہ واپس لینے کی درخواست داخل کر دی ہےمگر گاؤں میں اس فیصلے پر کوئی واضح ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے۔یہاں فضا آج بھی اتنی ہی خموش اور محتاط ہے جتنی اخلاق کے قتل کے بعد ہو گئی تھی۔ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق گاؤں کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی مہارانا پرتاپ کے مجسمہ کے پاس والی تنگ گلیاں اس بات کا ثبوت پیش کرتی ہیں کہ وقت گزر گیا ہے مگر زخم باقی ہے۔ وہ گلی جس کا نام کبھی چند لوگ ہی جانتے تھے، آج سب کے لئے بس ’’اخلاق والی گلی‘‘ ہے۔ تقریباً دس برس بعد بھی لوگ اس گلی کا اصل نام بھول چکے ہیں۔گلی کے اندر ۵۰؍ قدم چلنے پر ایک بوسیدہ، خالی اور ویران مکان نظر آتا ہے جو اخلاق کا گھر ہے۔ چھت پر جھاڑیاں اُگی ہیں، دروازہ بغیر تالے کے ہے، اندر دھول میں ڈھکا ٹوٹا پھوٹا سامان پڑا ہے ۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ آج بھی کوئی اس گھر میں داخل ہونے کی ہمت نہیں کرتا ۔مکان کے آس پاس بنے گھروں کے دروازے کھٹکھٹائے گئے تو زیادہ تر لوگوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ چند گز فاصلے پر چھوٹی سی مارکیٹ میں بیٹھے چار پانچ افراد نے بھی کیمرے پر آنے سے انکار کیا مگر طویل گفتگو کے دوران ماضی کی تلخیاں آہستہ آہستہ زبان پر آنے لگیں۔ ان کاکہنا تھا کہ وہ زمانہ گزر گیا، اب کیا ہے ؟ دنیش جو گلی کے دوسرے سرے پر رہتے ہیں، کہتے ہیں’’پتہ نہیں اخلاق کا خاندان کہاں ہے۔ کیس کے بعد انہیں معاوضہ بھی ملا تھا اور گھر بھی۔ شاید وہیں رہتے ہوں گے۔ یہاں واپس آنے کی اُن میں ہمت نہیں ہوگی۔‘‘بات جب فرقہ وارانہ ماحول پر آئی تو رامیشور نے بات سنبھالتے ہوئے کہا اب سب یہاں بھائی چارے سے رہتے ہیں۔ اُس رات کے بعد کچھ لوگ ڈر کے مارے گاؤں چھوڑ گئے تھے مگر پھر آہستہ آہستہ واپس آ گئے۔ جب حکومت کی جانب سے مقدمہ واپس لینے کے فیصلے پر رائے پوچھی گئی تو دکان میں بیٹھے مردوں نے مشترکہ طور پر کہاکہ ملزمین تو پہلے ہی ضمانت پر تھے۔ اب سب اپنے اپنے کام دھندے میں مصروف ہیں۔ اس وقت ایک ہجوم تھا، وقت کا جوش تھا جو ہو گیا۔ کیس واپس لینے میں اب کوئی برائی نہیں ہے۔ وہیں ساتھ میں بیٹھے سراج محمدکی آواز تھوڑی بھاری ہو گئی۔انہوں نے کہاکہ ہم سیاست نہیں چاہتے۔ جو ہم نے دیکھا وہ بھلایا نہیں جا سکتا۔ وقت نے اس گاؤں کا منظر تو بدل دیا ہےمگر یادیں اب بھی کئی گھروں کے دروازوں پر سائے کی طرح موجود ہیں۔انہوں نے کہاکہ کچھ کہانیاں گاؤںکے ذہن سے مٹ نہیں سکتیں ۔