نرسنہانند نے الفلاح یونیورسٹی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دارالعلوم دیوبند کو ”دہشت گردوں کے اڈے“ قرار دیا۔
EPAPER
Updated: November 13, 2025, 4:05 PM IST | New Delhi
نرسنہانند نے الفلاح یونیورسٹی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دارالعلوم دیوبند کو ”دہشت گردوں کے اڈے“ قرار دیا۔
داسنا دیوی مندر کے پجاری یتی نرسنہانند گِری نے مسلم تعلیمی اداروں کو نشانہ بناتے ہوئے شر انگیز بیان دیا ہے۔ انہوں نے الفلاح یونیورسٹی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)، جامعہ ملیہ اسلامیہ (جے ایم آئی) اور دارالعلوم دیوبند کو ”اڑا دینے“ کا مطالبہ کیا۔ ہندوتوا لیڈر نے ایک ویڈیو پیغام میں ان مسلم تعلیمی اداروں کو ”دہشت گردوں کے اڈے“ قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ انہیں ”توپوں سے اڑا دیا جانا چاہئے۔“ نرسنہانند کا بیان، پیر کو ہوئے دہلی میں لال قلعہ کے قریب ہوئے دھماکے کی حالیہ تحقیقات کے بعد سامنے آیا، جس کے بعد اسلام مخالف بیان بازی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ دھماکہ کے پیچھے مبینہ دہشت گرد ماڈیول کی تحقیقات کرنے والی تفتیشی ایجنسیوں نے الفلاح یونیورسٹی کے تین ڈاکٹروں کو حراست میں لیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ ڈاکٹر دہلی بلاسٹ کیس میں بھی مشتبہ ہیں، حالانکہ تحقیقات ابھی جاری ہے۔
یہ بھی پڑھئے: دہلی بم دھماکہ: جانچ کیلئے خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی
ویڈیو میں، نرسنہانند نے الزام لگایا کہ فریدآباد، ہریانہ کی ”نام نہاد الفلاح یونیورسٹی“ کے طلبہ نے ”دہشت گردوں کا ماتم“ کیا تھا۔ انہوں نے اپنے اس دعوے کو فوجی کارروائی کے اپنے مطالبے کو جائز قرار دینے کیلئے استعمال کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کی ہندو آبادی ان (نرسنہانند) جیسے افراد کی حمایت کرنے میں ناکام رہی ہے، جس کا موازنہ انہوں نے مسلم برادریوں کی متحد حمایت کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے اپنے بیان کو ہندوؤں کیلئے ایک انتباہ کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ”لڑنے والوں کے ساتھ کھڑے ہونا چاہئے۔“ نرسنہانند نے ان اداروں کو منہدم کرنے کے اپنے مطالبے کو دہرایا اور حامیوں پر زور دیا کہ وہ فوجی طاقت کے استعمال کیلئے ”لیڈران پر دباؤ ڈالیں“۔
یہ بھی پڑھئے: دہلی دھماکے کے بعد مہاراشٹر میں ہلچل، چھاپہ ماری، ناکہ بندی
واضح رہے کہ دھماکے کے بعد سوشل میڈیا پر اسلام مخالف بیان بازی اور مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سے بہت سی پوسٹس صرف غیر مصدقہ سوشل میڈیا ہینڈلز سے نہیں ہیں، بلکہ ہندوتوا لیڈران اور مرکزی دھارے کے صحافیوں کی طرف سے بھی ہیں۔