گاندھی بھون میں منعقدہ پریس کانفرنس میں سابق وزیر اعلیٰ اور کانگریس کےسینئر لیڈر پرتھوی راج چوہان کا مطالبہ۔ون نیشن ون الیکشن کی مخالفت کی ۔کہا :پہلگام حملے پر پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کیا جائے
EPAPER
Updated: May 19, 2025, 11:01 PM IST | Iqbal Ansari | Mumbai
گاندھی بھون میں منعقدہ پریس کانفرنس میں سابق وزیر اعلیٰ اور کانگریس کےسینئر لیڈر پرتھوی راج چوہان کا مطالبہ۔ون نیشن ون الیکشن کی مخالفت کی ۔کہا :پہلگام حملے پر پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کیا جائے
کانگریس کی جانب سے مرکز سے مطالبہ کیاگیا ہےکہ شہریوں سےپیٹرول اور ڈیزل اور اسی طرح سے ’سیس‘ اور’ سرچارج‘ کے بہانے جو ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں، وہ مرکز پوری طرح اپنے پاس رکھ لیتی ہے اس میں ریاستوں کو کچھ نہیں دیاجاتا اور ریاستیں ان ٹیکسوں سے محروم رہ جاتی ہے، اس لئے اس میں سے ریاستوں کو بھی حصہ دیاجائے ، اس کے علاوہ دیگر ٹیکس میں مرکز سے ریاست کو جو ۴۱؍ فیصد دیاجاتا ہے اسے بڑھا کر ۵۰؍ فیصد کیا جائے۔ اس سے ریاستوں کو ترقیاتی کاموں کیلئے میسر ہو سکےگا۔یہ مطالبات کانگریس کے سینئر لیڈر اور ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ پرتھوی راج چوہان نے ۱۶؍ ویں مالیاتی کمیشن کے سامنے ۸؍ مئی کوپیش کئے تھے۔ اسی طرح انہوںنے گزشتہ دنوں جوائنٹ پارلیمانی جوائنٹ کمیٹی (جے پی سی) کے میٹنگ میں ’وَن نیشن وَن الیکشن‘ کی بھی مخالفت کی ۔
ان میٹنگوں میں کانگریس کی جانب سے رکھی گئی باتیں ذرائع کے نمائندوں کوبتانے کیلئے پیر کو پرتھوی راج چوہان نے قلابہ کے گاندھی بھون میں منعقدہ پریس کانفرنس منعقد کی جس میں انہوںنے بتایا کہ ’’ مرکزی حکومت شہریوں سے متعد د ٹیکس وصول کرتی ہے۔ اس میں کچھ حصہ ریاستی حکومت کو بھی دیا جاتا ہے۔کس ریاست کوکتنا فیصد ٹیکس کا حصہ دیا جائے ،اس کا فیصلہ مالیاتی کمیشن کرتا ہے۔جو ٹیکس وصول کیا جاتاہے ،اس میں سے ۴۱؍ فیصد ٹیکس ریاستوں کو دیاجاتا ہے اور بقیہ ۵۹؍ فیصد مرکز اپنے پاس رکھتا ہے۔چونکہ ہم نے کوآپریٹیو فیڈریلزم قبول کیاہے اور اس فیڈریشن کے تحت ریاست اور مرکز میں کوئی بڑا اور چھوٹا نہیںہوتا اسی لئے ۱۶؍ ویں فنانس کمیشن کے سامنے ہمارا پہلا مطالبہ ہے کہ ٹیکس کی تقسیم ۵۰-۵۰؍ فیصد ہونا چاہئے۔ ۵۰؍ فیصد ریاست کو اور ۵۰؍ فیصد مرکز کو ٹیکس ملنا چاہئے۔ اس کے ساتھ سیس اور سرچارج کے نام پر مرکزی حکومت کچھ ٹیکس وصول کرتی ہے۔ پیٹرول اور ڈیزل پر سر چارج وصول کیاجارہا ہے،اسی طرح روڈ فنڈ، کنسٹرکشن چارج وغیرہ لیا جاتاہے ۔ یہ ٹیکس تقسیم نہیں کیا جاتا اور مرکزی حکومت پورا اپنے پاس ہی رکھ لیتی ہے۔اس میں بھی ریاست کو حصہ ملنا چاہئے۔اس کے علاوہ مرکزکی جانب سے ریاستوں کو مختلف مد میں جو فنڈ دیاجاتا ہے ، اسے خرچ کرنے کیلئے کئی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس میں ریاست کو خود مختار طریقے سے استعمال کرنے کا اختیار دینا چاہئے۔ انہوں نے بتایا کہ مرکز کی جانب سے ضلع پریشد اور نگر پنچایت کو مرکز کی جانب سے فنڈ دیاجاتا ہے لیکن ۱۵؍ویں فائنانس کمیشن کے مطابق جن شہری انتظامیہ کے انتخابات نہیں ہوئے ہیں، انہیں فنانس کمیشن کافنڈ تقسیم نہیں کیا جاتا۔ریاستی حکومت کی جانب سے بلدیاتی انتخابات نہ کروا کر شہری انتظامیہ اوردیہی علاقوں میں پنچایت سمیتی اور گرام پنچایت فنانس کمیشن کے اس فنڈ سے محروم ہو رہی ہے۔
’وَن نیشن وَن الیکشن ‘کے تعلق سے پرتھوی راج چوہان نے کہاکہ’’ ہٹلر کے دور میں جرمنی کا مشہور نعرہ تھا کہ ’ ایک لوک ، ایک قوم اور ایک نیتا‘اور مودی بھی ہٹلر سے ترغیب لے رہے ہیں اسی لئے اس وَن نیشن وَن الیکشن کو ملک میں نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے نفاذ کیلئے سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی صدارت میں کمیٹی تشکیل دی گئی ہے ۔‘‘
مزید بات کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اگرچہ `’ون نیشن-ون الیکشن‘ کے فوائد ظاہر کئے جا رہے ہیں لیکن برطانوی پارلیمانی نظام میں لوک سبھا یا اسمبلی کو کسی بھی وقت تحلیل کیا جا سکتا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ ’’ ملک میں ۳؍برس میں تین بار۱۹۹۶ء، ۱۹۹۸ء اور ۱۹۹۹ءمیں لوک سبھا الیکشن ہو چکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوک سبھا کو کسی بھی وقت تحلیل کیا جا سکتا ہے اور پھر بقیہ مدت کے لئے الگ الیکشن کرانا ہوں گے۔ انہوں نے مزید الزام لگایا کہ مرکزی حکومت امریکی طرز کے انتخابی عمل کو ہندوستان میں لانے کی کوشش کر رہی ہے جس کی کانگریس مخالفت کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ای وی ایم پر مکمل پابندی لگانے کے اپنے مطالبے کو دہرایا اور کہا کہ `پوری دنیا میں ای وی ایم کی مخالفت ہو رہی ہے لیکن مرکزی حکومت اب بھی ای وی ایم کو ہٹانے کا فیصلہ نہیں کررہی ہے۔
پرتھوی راج چوہان نے کہا کہ ملک نے جنگ کے دوران بھی شفافیت کو برقرار رکھا ہے۔۱۹۶۵ءمیں پنڈت جواہر لال نہرو، ۱۹۷۱ء میں اندرا گاندھی اور کارگل جنگ کے دوران اٹل بہاری واجپئی باقاعدگی سے پارلیمنٹ کو بریف کیا کرتے تھے۔ آج وزیراعظم نہ تو عوام کے سامنے پیش ہوتے ہیں، نہ پریس کانفرنس کرتے ہیں اور نہ ہی پارلیمنٹ کا اجلاس بلاتے ہیں۔ حکومت کی پی او کے کے حوالے سے واضح پالیسی ہونی چاہئے لیکن ایسا نظر نہیں آ رہا ہے۔
مدھیہ پردیش کے وزیر وجے شاہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے پرتھوی راج چوہان نے کہا کہ انہیںفوراً وزیر کےعہدے سے ہٹا دینا چاہئے۔ وزیراعظم مودی کی مرضی کے بغیروہ ایک گھنٹے بھی وزیر کے عہدہ پر بیٹھ نہیں سکتے۔لیکن مودی ایسا کرتے نظر نہیں آتے کیونکہ انہیں اپنے وزراء میں قبائلی ووٹ بینک نظر آتا ہے۔ وجے شاہ نے آپریشن سیندورمیں بھارتی فوج کی کرنل صوفیہ قریشی کے تعلق سے انتہائی غلط تبصرہ کیاتھا۔ یہ انتہائی قابل مذمت ہے کہ اس وزیر کی حمایت کی جا رہی ہے، حالانکہ عدالت نے اس معاملے پر اسے آڑے ہاتھوں لیا ہے۔
پرتھوی راج چوہان نے وزیر اعظم کی صدارت میں کل جماعتی میٹنگ اور پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس منعقد کرنے کا مطالبہ کیا۔ آپریشن سیندور کے تعلق سے کہاکہ ’’ آپریشن سیندور کے تعلق سے متعدد ٹی وی چینلوں نے جھوٹی خبریں نشر کی ہیں جس سے ہماری جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ خبروںکی جانچ کرنے کےبعدکارروائی کرنا چاہئے۔