Inquilab Logo

بھیونڈی میں یکے بعد دیگرے کئی میونسپل اُردو اسکولوں کا بند ہونا تشویشناک اور توجہ طلب ہے

Updated: October 18, 2023, 9:48 AM IST | Khalid Abdul Qayyum Ansari | Mumbai

پیلی بلڈنگ اسکول ، پٹیل نگر کا اردو پرائمری اسکول نمبر۶۷، نارلی تالاب کے اسکول نمبر ۱۳؍ اور ۳۷؍ اور دیگر کئی اسکول اس کی مثال ہیں ، اکثر عمارت کی خستہ حالی کو جواز بنایاگیا ،سماجی کارکنان اور عوامی نمائندوں کی اس پر خاموشی حیران کن۔

The Yellow Building School building has been locked down in the cross because it is considered highly disturbed. Photo: INN
پیلی بلڈنگ اسکول کی عمارت کو انتہائی مخدوش قرار دیکراس میں تالہ لگا دیا گیا ہے۔ تصویر:آئی این این

کلیان روڈ کے اردو اسکول نمبر ۶۵؍ کو بند کرنے کے فیصلے نے بھیونڈی میں گزشتہ چند برسوں میںیکے بعد دیگرے بند کئے گئے کئی اسکولوں کےمعاملے کو موضوع بحث بنا دیا ہے۔ یہ شہر پارچہ بافی کی صنعت کے ساتھ ہی اُردو کے ایک خوبصورت جزیرے کے طور پربھی پورے ملک میں اپنی  منفرد شناخت رکھتا ہے۔ یہاں سرکاری اردو اسکولوں کے اس طرح بند کئے جانے پر  اردو داں طبقہ کی  بے چینی کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتاہے جوسماجی کارکنان اور عوامی نمائندوں کی خاموشی پر بھی شاکی ہے اور اس بات کا متمنی ہے کہ اس سلسلے کو روکنے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ 
بھیونڈی کے عوام کی اردوزبان و ادب سے محبت  کا ہی نتیجہ ہے کہ یہاں اردو اسکولوںکی تعداد ملک کے دیگر حصوں سے کہیں زیادہ ہے۔یہاں اردو میڈیم کے تقریبا۴۰؍ پرائیویٹ ہائی اسکول اورپرائمری اسکول ہیں۔اس کے علاوہ کارپوریشن کی ۴۸؍ اردو میڈیم پرائمری  اسکولوں میں تقریباً ۱۵؍ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ الزام  ہے کہ اردو کے تئیں تنگ نظری کے شکار افسران کی وجہ سے  ایک کے بعد ایک میونسپل اردو اسکول بند  ہورہے ہیں۔  اردو سے الفت رکھنے والوں کو اس صورتحال نے پریشان کررکھا ہے وہ چاہتے ہیں کہ عوامی نمائندے اور سماجی تنظیموں کے ذمہ دار آگے آکر مزید اسکولوں کو قربان ہونے سے بچائیں۔
انقلاب نے گزشتہ چند برسوں  میں بند ہونے والے میونسپل  اردو اسکولوں کا جائزہ لیا  ہے۔ اکثر اسکول عمارت کے مخدوش ہونے، سہولیات کی کمی یا پھر طلبہ کی کمی کا بہانہ بنا کر بند کئے جاتے ہیں۔ شہر کی معروف پیلی بلڈنگ اسکول کی عمارت کو انتہائی مخدوش قرار دیکرتالا لگادیاگیا ۔اس میں  اسکول نمبر ۷، ۸، ۱۱، ۲۷، ۲۹؍ اور ایک ہائی اسکول یعنی کل ۶؍اسکول ۲؍ شفٹوں میں  چل رہے تھے۔  نظام پورہ کے سابق کارپوریٹر فراز بہاؤالدین (بابا)نے بتایا کہ پیلی بلڈنگ اسکول بھیونڈی کا ایک تاریخی اسکول ہے۔اس کو جب بند کیا گیا اس وقت  یہاں ۱۲۰۰؍طلبہ زیر تعلیم تھے جنہیں مختلف اسکولوں میں منتقل کردیا گیا۔ ان میں سے بیشتر طلبہ کا تعلیمی سفر ہی تقریباً ختم ہوگیا کیوں کہ وہ دوسرے اسکول میں نہیں گئے ۔فراز بابا نے اس کی ذمہ داری میونسپل انتظامیہ  پر عائد کرتے ہوئے  بتایا کہ اسکول کی مرمت کے خرچ کا تخمینہ محض  ۲؍ کروڑ  روپے کے آس پاس تھا لیکن  میونسپل کارپوریشن بچوں کی تعلیم  پر یہ چھوٹی سی رقم بھی خرچ کرنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے متنبہ کیاکہ مرمت کا جلد کوئی انتظام نہیں کیا گیا تو یہ تاریخی عمارت کھنڈر میں تبدیل ہوجائے گی۔ دھامنکر  ناکہ سے متصل پٹیل نگر میں حاجی صدیق پٹیل نامی شخص نے اسکول اور مدرسے کیلئے اپنی زمین وقف کی تھی۔اس زمین پر میونسپل کارپوریشن کااردو پرائمری اسکول  نمبر۶۷؍ بنایا گیا۔ عمارت مخدوش ہونے کے بعد بھی انتظامیہ نے اس کی مرمت نہیں کرائی۔ تقریباً۱۰؍سال قبل اس کو انتہائی مخدوش عمارتوں کے زمرے میں شامل کرکے منہدم کردیا گیااور بچوں کوپاس  ہی واقع آمین اسپتال کے بازو میں ایک ہال میں منتقل کردیا گیا۔ یہاں بچوں کے بیٹھنے کیلئے بنچ تک نہیں  ہے۔
  شہر کے نارلی تالاب  اسکول کی عمارت میں جاری ۶؍اردو پرائمری اسکولوں میں سے اردو اسکول نمبر ۱۳؍ اور اردو اسکول نمبر ۳۷؍کوطلبہ کی کمی کا بہانہ  بنا کر اسی عمارت کی دوسرے اردو پرائمری اسکولوں میں ضم کردیاگیا۔ مفت اورلازمی تعلیم کا حق  فراہم کرنے والے قانون ’’ حق تعلیم ایکٹ  -۲۰۰۹ء‘‘ کے مطابق انتظامیہ کی ذمہ داری اسکولوں کا قیام اور  معیاری تعلیم کی فراہمی ہے ۔ حق ِ تعلیم ایکٹ  کے مطابق ایسے اسکول جن میں ۲۰؍ طلبہ بھی زیر تعلیم ہوں بند نہیں کئے جاسکتے لیکن اس کے برخلاف   اردو اسکول نمبر ۱۳؍ اور اردو اسکول نمبر ۳۷ ؍کو بند کرکے دوسرے اسکولوں میں ضم کر دیا گیا۔ ان میں بالترتیب  ۱۹۷ ؍اور ۲۲۵؍ بچے زیر تعلیم تھے۔ 
دھامنکر ناکہ پرفائربریگیڈ کے بازو میں  میونسپل کارپوریشن کے   اردو اسکول نمبر ۶۳؍ اور ۹۷؍ایک ہی عمارت میں جاری  تھے۔ ان  میں دھامنکر ناکہ، اجنتا کمپاؤنڈ، نصیر آباد، شمع نگر، مادھو نگرپٹیل کمپاؤنڈ، وٹھل نگر، اجمیر نگر،روشن باغ اور آس  پاس کے تقریباً۷۰۰؍ بچے پڑھتے تھے۔ ۲۰۲۰ء میں اس عمارت کو انتہائی مخدوش قرار دے دیا گیا اور اسکول نمبر۶۳؍کے طلبہ کو سن شائن نامی عمارت میں منتقل کردیا گیا۔ اسکول نمبر ۹۷؍ کی چند کلاس اسی عمارت میں اور کچھ کلاس سن شائن میں منتقل ہوگئی  ہیں۔ وہ عمارت آج بھی ویسی ہی کھڑی ہے ۔اسٹرکچرل آڈٹ کے مطابق اس عمارت کی مرمت  پر محض ۴۰؍لاکھکا کا خرچ ہے لیکن نتظامیہ مرمت میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہا۔
۲۰۱۶ء میں غیبی نگر میں ایک عمارت کے منہدم ہونے کے بعد میونسپل انتظامیہ نے جلد بازی میں اردو پرائمری  اسکول نمبر ۲۲؍ اور۶۲؍کو مخدوش قرار دیکر سیل  اور طلبہ کو اسکول نمبر ۷۰؍ میں منتقل کردیا۔ اسٹرکچرل آڈٹ رپورٹ میں اسکول کی مرمت کیلئے صرف ۱۷؍لاکھ روپے کا تخمینہ پیش کیاگیا تھا لیکن مرمت کے بجائے  اسکول ہی بند کردیا گیا۔ ۲۰۱۷ء میں میونسپل انتخاب کے موقع پر مرمت  شروع ہوئی مگر  الیکشن  بعد  پھر اسے ’انتہائی مخدوش ‘قرار دے کربند کردیا گیا۔ اس وقت اسٹرکچرل آڈٹ میں مرمت پر ۴۰؍لاکھ روپے خرچ کا تخمینہ لگایا گیالیکن کارپوریشن نے توجہ نہیں دی۔ طلبہ کے تعلیمی نقصان کو دیکھتے ہوئے رکن اسمبلی رئیس شیخ نے  ایم ایل اے  فنڈ سے مذکورہ اسکول کی نئی عمارت کا کام شروع کروایا ہے ،جو عنقریب مکمل ہونے والا ہے۔ یہ اسکول رکن اسمبلی کی خصوصی دلچسپی کے سبب بچ گئی ورنہ اسے بھی بند کرنے کی تیاری کرلی گئی تھی۔
نوٹ: انقلاب  نے  بھیونڈی اسکول نمبر ۶۵؍ کے بند ہونے پراتوار کو ۳؍ قسطوں پر مشتمل سیریز کا اعلان کیا تھا۔ آج یہ اس سلسلے کی آخری قسط ہے تاہم اس موضوع پر قارئین اظہار خیال فرمانا چاہیں تو انقلاب کے صفحات حاظر خدمت ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK