Inquilab Logo

سپریم کورٹ نے کٹھوعہ عصمت دری کیس کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا

Updated: November 17, 2022, 10:10 AM IST | new Delhi

کشمیر کی مقامی عدالت کے فیصلے کو تبدیل کرتے ہوئے ملزم سانگرا کا مقدمہ بالغ کے طور پر چلانے کی ہدایت دی

Supreme Court of India
سپریم کورٹ آف انڈیا

:سپریم کورٹ نے جموں کشمیر کی مقامی عدالت کے فیصلے کو خارج کرتے ہوئے۲۰۱۸ء میں خانہ بدوش برادری کی آٹھ سالہ بچی آصفہ کی  عصمت دری اور اس کا قتل کرنے کے ایک ملزم کے خلاف پھرسے مقدمہ چلانے کا حکم دیا۔جسٹس اجے رستوگی اور جسٹس جے بی  پاردی والا کی صدارت والی سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ کٹھوعہ معاملے میں اہم ملزم شبھم سانگرا کو نابالغ نہیں بلکہ ایک بالغ کے طورپر پیش کیا جانا چاہئے۔بینچ نے کہا کہ کٹھوعہ کے چیف جیوڈیشیل مجسٹریٹ نے اس معاملے میں ملزم کی عمر اور نابالغ حالت کے پیش نظر فیصلہ سنایا ہے جسے ہم قبول نہیں کرسکتے ۔ بنچ نے کہا کہ جموں  کشمیر حکومت نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ہائی کورٹ نے جیوڈیشیل مجسٹریٹ کی عدالت کے اہم ملزم کو نابالغ بتائے جانے کے حکم کی غلط طریقے سے تصدیق کی تھی۔بینچ نے کہا کہ ملزم کی عمر سے متعلق ثبوتوں کی کمی  میں عمر کا تعین کرنے کے سلسلے میں ڈاکٹر کی رائے پر غور کیا جانا چاہئےتھا۔میڈیکل ثبوت پر بھروسہ کرنا یا نہ کرنا  ثبوت کی نوعیت پر منحصر کرتا ہے اور اس معاملے میں یہی ہونا بھی چاہئے۔
 سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کٹھوعہ مجسٹریٹ کے حکم کو منسوخ کیا  جاتا ہے اور ملزم کو جرم کے وقت نابالغ نہیں بلکہ بالغ  مانا جائے اور اس کے حساب سے مقدمہ چلاتے ہوئے سزا کا تعین کیا جائے۔ پٹھان کوٹ کی عدالت نے اس معاملے میں تین قصورواروں سانجھی رام،دیپک کھجوریا اور پرویش کمار کو  عمر قید کی سزا سنائی تھی  جبکہ سانگرا کا کیس جوینائل بورڈ کو سونپ دیا گیا تھا جہاں سماعت جاری ہے۔ سانگرا  اس کیس کے ماسٹر مائنڈ  سانجھی رام کا بھتیجا  ہے جبکہ دیپک کھجوریا ایک پولیس افسر تھا۔ عدالت کی جانب سے خصوصی پولیس افسر سریندر ورما، ہیڈ کانسٹیبل تلک راج اور سب انسپکٹر آنند دتا کو ثبوت  مٹانے کے معاملے میں ۵؍سال کی جیل کی سزاسنائی گئی۔

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK