Inquilab Logo

شاہی عیدگاہ مسجد کے سروے کوچیلنج کیا جائیگا، یکطرفہ ہونے کا الزام

Updated: December 26, 2022, 12:15 PM IST | Mathura

متھرا کورٹ نے ۸؍ دسمبر کو فیصلہ سنایا مگر منظر عام پر ۲۴؍ دسمبر کو آیا اور تب ہی مسجد کے ذمہ داران کو بھی معلوم ہوا، مسجد کے منتظمین نے کوئی نوٹس تک نہ ملنےکی شکایت کی، عدالتوں کی تعطیل کی بنا پر اب جنوری میں ہی چیلنج کیا جاسکے گا جبکہ ضلع کورٹ نے ۲؍ جنوری سے سروے شروع کرنے کا حکم دیا ہے

photo;INN
تصویر :آئی این این

متھرامیں شاہی عیدگاہ مسجد کا سروے کرانے کےضلعی عدالت کے فیصلے پر یکطرفہ ہونے کا الزام عائد کیا جارہاہے۔ شاہی عیدگاہ مسجد کی منتظمہ کے سیکریٹری   اور وکیل تنویر احمد  نے بتایا کہ ’’ہمیں اس کیس کے تعلق سے کوئی  نوٹس ہی نہیں ملا۔ ہمیں مقامی ذرائع سے معلوم ہوا کہ کورٹ نے سروے کا حکم دے دیا ہے۔ اب عدالت کی سرمائی  تعطیلات ہوگئی ہیںاس لئے جنوری کے پہلے ہفتے میں ہی اس فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا جاسکےگا۔‘‘  واضح رہے کہ  الہ آبادہائی کورٹ میں  ۲؍ جنوری تک کیلئے سرمائی تعطیلات کا اعلان کیا گیا ہے۔انہوں  نے کہا کہ ’’ہم اس فیصلے کو یقیناً چیلنج کریں گے جو ہمیں اپنی بات رکھنے کا موقع دیئے بغیر  سنایاگیاہے۔‘‘
 دو ہفتوں تک فیصلہ مخفی رکھاگیا؟
 سنیچر کو ملنے والی رپورٹوں  سے یہ تاثر قائم ہورہاتھا کہ متھرا ضلع کورٹ نے  فیصلہ جمعہ کو سنایاہے مگر  ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ضلع کورٹ  نےسروے کا حکم ۸؍ دسمبر کو سنایاتھا مگر یہ منظر عام پر ۲۴؍ دسمبر کو آیا جو کورٹ میں سرمائی  تعطیلات کاآغاز ہوگیا۔ اگر شاہی عیدگاہ مسجد  کے منتظمین کو نوٹس جاری کرکے انہیں اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ملتا تو وہ عدالت کے اس فیصلے سے بھی ۸؍ دسمبر کو ہی آگاہ ہوجاتے اورانہیں  اسے ہائی کورٹ میں اسے چیلنج کرنے کا وقت بھی مل جاتا۔ اب  ۲؍ جنوری کو ہائی کورٹ کھلنے کے بعد ہی اسے چیلنج کیا جاسکے گاجبکہ ضلع کورٹ نے مقامی عدالت کے امین کو ۲؍ جنوری سے ہی سروے شروع کرنے اور ۲۰؍ جنوری تک رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ مسلم فریق ۲؍ جنوری کو ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کر کے حکم امتناعی حاصل کرنے کی کوشش کریگا۔
 سروے کا حکم دانستہ مخفی رکھاگیا؟
اس ضلعی کورٹ کے فیصلے پر اسٹے حاصل کرنے میں  کامیابی ملی تب ہی  سروے رُک پائے گا ،ورنہ اس کے رُکنے کے امکانات کم ہیں۔   یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا جارہاہے کہ دانستہ طورپر عدالتی حکم کو مخفی رکھاگیا  اور ۲۴؍  دسمبر کو اُس دن عام کیاگیا جس دن عدالتیں  ۲؍ جنوری تک کیلئے بند ہورہی ہیں تاکہ مسلم فریق کو  اسے بروقت چیلنج کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ 
 فیصلہ پلیس آف ورشپ ایکٹ سے متصادم
 متھرا کی عدالت کے فیصلے پر اپنے ردعمل کااظہار کرتے ہوئے مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے ٹویٹ کیا ہے کہ ’’بابری مسجد کیس میں  سپریم کورٹ کے  فیصلے کے بعد ہی میں نے کہاتھا کہ اس سے آر ایس ایس کی  چال بازیوں کو مزید تقویت حاصل ہوگی۔ اب کورٹ نے متھرا میں بھی شاہی عیدگاہ مسجد کے اندر شواہد کی تلاش کیلئے کورٹ کمشنر مقرر کردیا ہے۔ یہ فیصلہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کے نافذ ہونے کے باوجود دیاگیا جو اس طرح کی قانونی چارہ جوئی پر ہی روک لگادیتا ہے۔‘‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے بھی پلیس آف ورشپ ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی تائید کی تھی۔   واضح رہے کہ یہ ایکٹ ۱۵؍ اگست  ۱۹۴۷ء سے قبل کی تمام عبادت گاہوں کا احاطہ کرتا ہے اور  انہیں تحفظ فراہم کرتا ہے۔ صرف بابری مسجد کو اس  قانون  سے مستثنیٰ رکھاگیاتھا ۔اس ایکٹ کے مطابق ملک کی کسی بھی عبادتگاہ کی  ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو جو مذہبی حیثیت تھی،اسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ 
 مسجد کی ملکیت کے تمام شواہد موجود 
  ایڈوکیٹ تنویر احمد نے ٹائمز ناؤ نیوز  کے سوالوں  کے جواب میں بتایا کہ ’’۲؍ جنوری کے بعد ہم ضروری قدم اٹھائیں گے اور اس فیصلے پر اسٹے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘ انہوں  نے بتایا کہ ’’عدالت میں ہندو فریق نے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ۔ کورٹ نے ان کے کئی مطالبات کو تسلیم نہیں کیا ہے۔‘‘  مسجد کی ملکیت کے تمام دستاویزات ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے  ایڈوکیٹ تنویر احمد نے کہا کہ ’’ہم اس فیصلے کو چیلنج کریں گے، ہمارے پاس  تمام دستاویز ہیں ۔ ہمارے پاس مسجد کی ملکیت کے تمام شواہد موجود ہیں، جن کو عدالت  کے سامنے پیش کیا جائے گا۔‘‘
سو ِل کورٹ عرضی خارج کرچکاہے
  یادرہے کہ متھرا کا سو ِل کورٹ  پلیس آف ورشپ ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے اس عرضی کو خارج کرچکا  ہے۔ عدالت نے عرضی کو خارج کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہاتھا کہ اگر اس پٹیشن کو سماعت کیلئے منظور کرلیا جاتا ہے تو پھر ملک بھر میں  اس طرح کی پٹیشنوں کی باڑھ آجائےگی۔  
 یاد رہے کہ بابری مسجد کیس میں رام مندر کے حق میں  سپریم کورٹ کے فیصلے  کے بعد سے ہی بھگوا عناصر کے حوصلے بلند ہیں۔اس سال  ۶؍ دسمبر کو بابری مسجد کی شہادت کی برسی کے موقع پر اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا نے  شر انگیزی کرتے ہوئے شاہی عید گاہ مسجد میں  ہنومان چالیسا پڑھنے کا اعلان کیاتھا۔ مقامی انتظامیہ نے اس  کے خلاف کئی افراد کو حراست میں  لیا تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK