افغانستان کے تام طبقات کو حکومت میں شامل کرنے کے سوال پر افغان وزیر خارجہ نے سوال کیا ’’ کیا جو بائیڈن اپنی حکومت میں ڈونالڈ ٹرمپ کو شامل کریں گے؟‘‘
EPAPER
Updated: November 14, 2021, 7:41 AM IST | islamabad
افغانستان کے تام طبقات کو حکومت میں شامل کرنے کے سوال پر افغان وزیر خارجہ نے سوال کیا ’’ کیا جو بائیڈن اپنی حکومت میں ڈونالڈ ٹرمپ کو شامل کریں گے؟‘‘
پاکستان کے دورے پر آئے افغانستان کے وزیر خارجہ امیراللہ خان متقی نے عالمی برادری کو متنبہ کیا ہے کہ طالبان پر دبائو ڈالنے کا حربہ کارگر ثابت نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے تعلق سے رکھی جانے والی شرائط پر بھی سوال اٹھائے۔ ساتھ ہی انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم اور حکومت سازی میں دیگر طبقات کو شامل کرنے جیسے سوالات کے بھی جواب دیئے۔
پاکستانی دارلحکومت اسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز کے زیر اہتمام منعقدہ ایک مذاکرات میں امیراللہ خان متقی سے کئی طرح کے سوالات پوچھے گئے۔ موجودہ حکومت کی فوج میں کیا طالبان جنگجوئوں کے علاوہ ان فوجیوں کو بھی شامل کیا جائے گا جو اس سے قبل ( اشرف غنی کے دور میں) افغان فوج کا حصہ تھے؟ اس تعلق سے امیراللہ خان نے کہا کہ افغانستان کو اب ایک مختصر سی فوج کی ضرورت ہے ۔ اس میں صرف ان لوگوں کو شامل کیا جائے گا جن میں خلوص ہو، عزم ہو اور حب الوطنی کا جذبہ ہو۔ یعنی انہوں نے واضح کر دیا کہ سابقہ فوجیوں کو نئی حکومت میں تریب دی جانے والی سیکوریٹی فورس میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد اشرف غنی حکومت میں تعینات افغان فورس نے بغیر لڑے ہی طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ اور حال ہی میں آئی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد جب یہ اہلکار افغان فوج کا حصہ نہیں رہے تو انہوں نے داعش میں شمولیت اختیار کرنی شروع کردی۔
کیا جو بائیڈن ٹرمپ کو حکومت میں شامل کریں گے؟
جب افغان وزیر خارجہ یہ پوچھا گیا کہ ان کی حکومت افغانستان کے تمام طبقات کو اقتدار میں شامل کرنے کے تعلق سے کیا اقدام کر رہی ہے تو انہوں نے کسی حد تک برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’ ہماری حکومت میں تمام طبقے کی نمائندگی ہے کیونکہ اس میں مختلف نسل کے لوگ شامل ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری ہم سے کہہ رہی ہے کہ ہم اپنے سیاسی مخالفین کو بھی اپنی حکومت میں شامل کریں۔ایسی روایت کہیں نہیں ملتی۔‘‘ انہوں نے پوچھا ’’ کیا جو بائیڈن اپنی حکومت میں ڈونالڈ ٹرمپ کو شامل کریں گے؟‘‘ یاد رہے کہ عالمی برادر ی بار بار طالبان پر اس بات کا دبائو بنا رہی ہے کہ وہ حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ جیسے اپنے مخالفین ( جنہوں نے جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا) کو بھی حکومت میں شامل کریں ۔ اور اس بات پر بار بار اصرار کیا جا رہا ہے۔ امیراللہ خان نے اسی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا’’ ۲۰؍ سال ہم سے لڑنے کے بعد بھی آپ کی یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ طالبان پر دبائو ڈالنے کا حربہ ہر گز کارگر ثابت نہیں ہو سکتا؟‘‘
ہم نے کسی خاتون کو کام کرنے سے نہیں روکا
خواتین کے حقوق سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں امیراللہ خان نے کہا’’ جب سے طالبان اقتدار میں آئے ہیں کسی ایک خاتون کو بھی نوکری سے نہیں نکالا گیا ہے۔‘‘ لڑکیوں کے اسکولوںکے بند ہونے پر ان کا کہنا تھا ’’ ہم ایک جامع پروگرام ترتیب دے ررہے ہیں تاکہ اسکولوںکو جلد از جلد کھولا جا سکے۔‘‘ البتہ انہوں نے اسکولوں کے کھلنے کی کوئی حتمی تاریخ نہیں بتائی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’’ کوئی ۲؍ لاکھ اساتذہ ہیں جو اسکولوں میں درس وتدریس کے کام سے وابستہ ہیں۔ ان سب کو تنخواہیں دینی ہیں۔ مگر کوئی بھی آگے آکر یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ہم انہیں تنخواہ دیں گے۔‘‘
واضح رہے کہ امیراللہ خان متقی کوئی ۲۰؍ لوگوں پر مشتمل وفد کے ساتھ پاکستان گئے تھے جہاں انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے علاوہ کئی اہم پاکستانی حکام سے ملاقات کی۔ جمعرات کو اسلام آباد ہی میں ٹرائکا پلس کا اجلاس بھی منعقد کیا گیا تھا جس میں طالبان وفد کے سامنے ایک بار پھر خواتین کے حقوق اور حکومت میں مختلف طبقات کی شمولیت کے تعلق سے مطالبہ کیا گیا۔ امیراللہ خان کے حالیہ بیان سے واضح ہو جاتا ہے کہ طالبان دیگر طبقات کو حکومت میں شامل کرنے کے روادار نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنہوں نے ۲۰؍ سالہ جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا ہے، ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔