Inquilab Logo

طالبان نے آدھے افغانستان پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے

Updated: July 23, 2021, 12:40 PM IST | Agency | Washington

پنٹاگون نے اعتراف کیا کہ جنگجو تنظیم ملک کے ۴۱۹؍ میں سے ۲۱۲؍ اضلاع میں اپنا نظام چلا رہی ہے جبکہ ۳۴؍ میں سے ۱۷؍ صوبوں کی راجدھانی پر قبضہ جماچکی ہے

picture:pictureinn

امریکی محکمۂ دفاع پنٹاگون نے اعتراف کیا ہے کہ طالبان، افغانستان کے آدھے سے زیادہ ضلعی مراکز پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ لہٰذا آنے والے مہینے افغان حکومت کی قیادت اور عزم کا امتحان ہوں گے۔امریکہ کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے بدھ کو پنٹاگون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ’’ وہ اندازے جو ظاہر کرتے ہیں کہ طالبان افغانستان کے اطراف میں تیزی سے مختلف علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لے رہے ہیں، وہ حقیقت سے دُور نہیں ہیں۔‘‘ایک رپورٹ کے مطابق مارک ملی کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان  کے ۲۱۲؍ ضلعی مراکز جو کہ ملک کے کل اضلاع کا تقریباً نصف بنتے ہیں۔ اس وقت طالبان کے کنٹرول میں ہیں اور طالبان  ملک کے ۳۴؍ میں سے ۱۷؍ صوبائی دارالحکومتوں کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔جنرل ملی نے کہا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ اسٹریٹیجک مومینٹم طالبان کے پاس ہے۔‘‘ جنرل مارک ملی نے کہا کہ ’’طالبان کوشش کر رہے ہیں کہ وہ آبادی کے بڑے مراکز کو الگ تھلگ کر دیں۔ وہ یہی کچھ کابل کے ساتھ کر رہے ہیں، وہ بہت سے علاقوں کا کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔‘‘یہ اعتراف افغانستان سے امریکہ اور اتحادی افواج کے اپنے باقی ماندہ فوجی نکالنے کے عمل کے ڈھائی ماہ بعد سامنے آیا ہے۔ باوجود اس کے کہ امریکہ کے چوٹی کے عہدیداروں اور صدر جو بائیڈن نے یقین دہانی کروائی تھی کہ طالبان کا افغانستان پر قبضے کا امکان نہیں ہے۔لیکن واشنگٹن میں قائم ادارے `فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسی کے جریدے `لانگ وار جرنل نےتصدیق کی ہے کہ جب سے غیر ملکی افواج نے افغانستان سے انخلا شروع کیا ہے، طالبان نے اپنے کنٹرول والے اضلاع کی تعداد تین گنا کر لی ہے۔گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں متعدد انٹیلی جنس اداروں کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ طالبان وہ کچھ حاصل کرنے کیلئے بے تاب نظر آتے ہیں جو وہ مذاکرات کی میز پر حاصل نہیں کر سکے تھے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ طالبان کے کمانڈرز افغان تنازع کے فوجی حل پر مصر ہیں۔ جنرل ملی نے جب جون میں کانگریس کو افغان صورتِ حال سے متعلق بریفنگ دی تھی تو اس وقت طالبان نے ۸۱؍ ضلعی مراکز پر کنٹرول حاصل کیا تھا جبکہ اب یہ تعداد دو گنا ہو گئی ہے۔جنرل ملی نے خبردار کیا کہ طالبان کا یہ مؤقف مان لینا بھی ایک غلطی ہو گی کہ افغانستان کی سیکوریٹی فورس بالکل اُن کا مقابلہ نہیں کر پا رہی ہیں۔ان کے بقول افغانستان کی سیکوریٹی فورس اضلاع سے اس لئے بھی پیچھے ہٹ رہی ہیں کہ وہ خود کو زیادہ منظم کر سکیں اور ان کی سوچ یہ ہے کہ آبادی کو محفوظ بنایا جائے۔ اور زیادہ تر آبادی صوبائی دارلحکومتوں میں رہتی ہے۔
 ادھر امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے بھی بدھ کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ افغان سیکوریٹی فورس اور حکومت کی مدد کیلئے پر عزم ہے۔ تاہم دوسری جانب امریکی حکومت کے حلقوں کے اندر یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ آیا افغان سیکوریٹی فورس طالبان کے سامنے ٹھہرنے کی اہلیت رکھتی ہیں یا نہیں ۔ بدھ کو پنٹاگون نے بتایا کہ افغان مترجمین اور ان افراد کا پہلا گروپ جلد امریکہ پہنچ رہا ہے جن کی زندگیاں افغانستان کے اندر خطرے میں ہو سکتی ہیں۔وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا کہ یہ امریکہ کے دوست ہیں جنہوں نے مثالی طور پر بڑا حوصلہ مندانہ کام کیا ہے اور ہم ان کیلئے اور ان کے خاندان کیلئے اپنی ذمے داریوں کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK