• Fri, 31 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

عمر خالد اور دیگر کی ضمانت کی حسب ِمعمول مخالفت

Updated: October 30, 2025, 11:27 PM IST | New Delhi

سپریم کورٹ کے سخت رویے اور سرزنش کے بعد دہلی پولیس نے اپنا جواب داخل کیا۔ ۱۷۷؍ صفحات کے حلف نامے میں وہی گھسی پٹی کہانی دہرائی کہ عمر خالد، شرجیل امام اور دیگر دہلی فسادات کی سازش رچنے والے کلیدی ملزمین ہیں، انہیں کسی بھی قیمت پر ضمانت نہ دی جائے۔ آج سپریم کورٹ میں سبھی کی ضمانت کی عرضی پر حتمی سماعت

Umar Khalid, Sharjeel Imam, Khalid Saifi, Miran Haider, Gulfashan Fatima and others named in Delhi riots case
دہلی فسادات کے مقدمے میں ماخوذ کئے گئے عمر خالد، شرجیل امام، خالد سیفی ، میران حیدر، گلفشاں فاطمہ اور دیگر

دہلی پولیس نے عمر خالد، شرجیل امام ، خالد سیفی ، گلفشاں فاطمہ سمیت ۸؍ ملزمین کی ضمانت کی عرضی پر سپریم کورٹ کے سخت رویہ اور سرزنش کے بعدبالآخر اپنا جواب داخل کردیا ہے۔ یہ جواب دہلی پولیس کی اسی گھسی پٹی تھیوری کو پیش کرتا ہے کہ عمر خالد اور دیگر نے دہلی فسادات کی سازش رچی تھی تاکہ مرکز میں حکومت تبدیل کی جاسکے۔ تقریباً ۱۷۷؍ صفحات پر مشتمل مفصل حلف نامہ میںدہلی پولیس نے کہا ہے کہ ان ملزمین کو کسی بھی قیمت پر ضمانت نہ دی جائے کیوں کہ یہ فسادات ’’ایک منظم اور طویل المدت سازش کا نتیجہ تھے‘‘ جس کا مقصد نہ صرف شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف ملک گیر سطح پر عدم اطمینان پیدا کرنا تھا بلکہ ’’حکومت کی تبدیلی‘‘ کی راہ ہموار کرنا بھی تھا۔ پولیس نے اس سلسلے میں  عمر خالد اور شرجیل امام سمیت دیگر ملزمین کی ضمانت کی سخت مخالفت کی ہے۔ واضح رہے کہ آج سپریم کورٹ میں عمر خالد اور دیگر کی ضمانت کی عرضی پر حتمی سماعت ہوگی کیوں کہ عدالت نے گزشتہ سماعت کے دوران دہلی پولیس کی کلاس لیتے ہوئے اسے حلف نامہ داخل کرنے کے لئے صرف چند روز کی مہلت دی تھی اور یہ واضح کردیا تھا کہ ۳۱؍ اکتوبر کو ضمانت پر فیصلہ سنادیا جائے گا۔
  اس سے قبل دہلی پولیس نے اپنے حلف نامہ میںدعویٰ کیا کہ فسادات کی سازش پہلے سے تیار کی گئی تھی اور اسے اس طرح بنایا گیا کہ جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ دورۂ ہند پر ہوں تو زبردست احتجاج کیا جائے تاکہ عالمی میڈیا کی توجہ حاصل  ہوجائے اور حکومت ہند کو بین الاقوامی سطح پر ’’مسلم مخالف امیج‘‘ کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔
  حلف نامے میںپولیس نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ریکارڈ پر موجود پیغامات، کال ڈیٹا، میٹنگز کے نوٹس اور متعدد گواہوں کے بیانات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ملزمین نے ملک میں فرقہ وارانہ خطوط پر کشیدگی بڑھانے کی منظم کوشش کی۔ پولیس کے مطابق یہ صرف احتجاج نہیں تھا بلکہ ’’منصوبہ بند تشدد‘‘ تھا، جسے سی اے اے مخالف مظاہروں کے پردے میں انجام دینے کی کوشش کی گئی۔حلف نامے کے مطابق ’چیٹ میسیجز اور فون ریکارڈنگز‘‘ میں اس دورہ کا حوالہ موجود ہے۔
 پولیس نے اپنے حلف نامہ میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ملزمین خود ہی ٹرائل میں تاخیر کے ذمہ دار ہیں اس لئے انہیں چارج شیٹ فائل کرنے میں تاخیر کی بنیاد پر ضمانت نہیں دی جا سکتی۔پولیس نے اس بات کا بھی اظہار کیا ہے کہ یو اے پی اے کے تحت گرفتار ہونے والے ملزمین چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث نہیںہوتے، ان کے جرائم  نہایت سنگین نوعیت کے ہوتے ہیں اسی لئے ان معاملات میں اصول یہی ہے کہ انہیں جیل میںرکھا جائے، ضمانت نہ دی جائے۔یاد رہے کہ فروری ۲۰۲۰ء میں ہونے والے دہلی فسادات میں ۵۳؍ افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں بڑی تعداد مسلمانوں کی تھی جبکہ سرکاری اور نجی املاک کو شدید نقصان پہنچا تھا اور وہ بھی زیادہ تر مسلمانوں کی ہی تھیں۔جو گرفتاریاں عمل میں آئیںان میں بھی زیادہ تر مسلمان ہی تھے لیکن ان میں سے بیشتر کو  عدالتوں سے راحت مل گئی ہے ۔
 اس مقدمے میں ماخوذ کئے گئے بیشتر ملزمین جن میں عمر خالد اور شرجیل امام کے نام اہم ہیں، ۵؍ سال سے زائد عرصے سے جیل میںبند ہیں۔ اب تک اس مقدمہ کی کارروائی تک شروع نہیںہوئی ہے اور ا ن ملزمین کو بغیر مقدمہ چلائے ہی ۵؍سال کی سزا کاٹنی پڑ گئی ہے۔عمر خالد اور دیگر کی رہائی کے لئے سماجی سطح پرکافی آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور عدالت سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ شخصی آزادی کے اصول پر عمل کریں اور ان ملزمین کو رِہا کریں۔ اس سے قبل عمر خالد اور دیگر ملزمین اپنی ضمانت کی عرضیوں میں یہ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ نہ انہوں نے کوئی سازش رچی اور نہ تشدد میں کسی بھی طرح ملوث تھے۔وہ صرف سی اے اے کے خلاف احتجاج کررہے تھے اور وہ بھی نہایت پرامن احتجاج تھا۔ اس کی وجہ سے کہیںبھی کوئی تشدد نہیں بھڑکا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK