لوک سبھامیں کانگریس پارٹی کےڈپٹی لیڈر گورو گوگوئی نے وقف بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اس متنازع اور غیر آئینی بل کی ایک ایک شق پر گفتگو کی ، سرکار کی نیت پر سوال اٹھائے
EPAPER
Updated: April 05, 2025, 10:03 PM IST | New Delhi
لوک سبھامیں کانگریس پارٹی کےڈپٹی لیڈر گورو گوگوئی نے وقف بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اس متنازع اور غیر آئینی بل کی ایک ایک شق پر گفتگو کی ، سرکار کی نیت پر سوال اٹھائے
محترم اسپیکر صاحب میں وقف (ترمیمی) بل کی مخالفت میں بولنے کے لئےکھڑا ہوا ہوں۔ یہ بل صرف ایک انتظامی ترمیم نہیں ہے یہ ہمارے آئینی ڈھانچے، اقلیتوں کے مذہبی حقوق اور سیکولر اصولوں پر گہرا اور منظم حملہ ہے۔سب سے پہلی بات یہ کہ یہ بل آئین کے آرٹیکل ۲۶؍کی براہ راست خلاف ورزی کرتا ہے۔ ہمارے آئین میں ہر مذہبی گروہ کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہبی امور کو خود انجام دے،اپنے ادارے قائم کرے اور اپنی جائیدادوںکی دیکھ ریکھ اور انتظام کرے۔وقف ادارے مسلمانوں کے مذہبی و فلاحی معاملات سے جُڑے ہوتے ہیں لیکن ان میں ریاست کی بڑھتی ہوئی مداخلت دراصل ان کے اس بنیادی حقوق پر سیدھی ضرب ہے۔
اس بل کے ذریعےوقف بورڈ کو ایسے اختیارات دیے گئے ہیں جن کے تحت وہ متولیوں کو کسی بھی وجہ کے بغیر برطرف کر سکتا ہے۔ کیا یہ مناسب ہے کہ کسی شخص کو بغیر کسی عدالتی شنوائی کے ہٹادیا جائے؟ کیا ہم ایک جمہوری ملک میں رہ رہے ہیں یا کسی بادشاہت میں؟ کیا آپ نے کسی مندر ٹرسٹ پر ایسی گرفت دیکھی ہے؟وقف بورڈ کی طاقت میں بے حد اضافہ کرکے اس بل نے متولیوں، علماء اور مذہبی اداروں کو بالکل بے اختیار کر دیا ہے۔ اب بورڈ جو چاہے فیصلہ کر سکتا ہے اور وہ بھی متولی کی رضامندی کے بغیر۔ اس پر ہمیں سب سے زیادہ حیرت ہے کہ سرکار کس طرح کا قانون بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ ویسے بھی وقف کی جائیدادوں پر سیاستدانوں اور بیوروکریسی کی نظر ہے — اور یہ بل انہیں قانونی تحفظ عطا کررہا ہے ۔ اس سے محسوس ہو رہا ہے کہ یہ بل بدعنوانی کا دروازہ کھولے گا اور ہمارا احساس بھی یہی ہے کہ سرکار کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ اس بل کے ذریعے وقف کی زمینیں ہڑپ لی جائیں گے ۔جن زمینوں کے تعلق سے تنازع ہے انہیں تو کسی بھی حال میں وقف کے پاس واپس نہ جانے دیا جائے۔
وقف ترمیمی بل ایک اور سنگین پہلو یہ ہے کہ اس بل میں عدالتی جائزہ کا دائرہ محدود کر دیا گیا ہے۔ اگر کوئی متولی بورڈ کے فیصلے سے ناراض ہو یا وہ واضح طور پر محسوس کر رہا ہوں کہ بورڈ من مانی کررہا ہے ، نا انصافی کررہا ہے تو وہ عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاسکتا — یا صرف مخصوص دائرے میں ہی عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔ کیا یہ ہمارے ہی شہریوں کے بنیادی حقوق کی توہین نہیں ہے؟آرٹیکل ۱۴؍ جو ہر شہری کو برابری کا حق دیتا ہے، اس کی بھی خلاف ورزی ہوئی ہے۔اگر کسی پر کوئی کیس درج ہے تو وہ وقف کا متولی نہیں بن سکتامگر دوسرے مذہبی اداروں کیلئے یہ شرط نہیں ہے۔ آخر یہ دہرا معیار کیوں؟ میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کیا ریاست کو یہ حق ہے کہ وہ اقلیتوں کے مذہبی اداروں کو اپنے کنٹرول میں لے لے؟یہ دراصل مذہبی آزادی کا استحصال ہے۔ — ایک طرح سے مذہب پر ریاست کا قبضہ ہے۔یہ بل ہمیں انگریزوں کے دورکی یاد دلاتا ہے جب انہوں نے وقف کی جائیدادوں کو اپنے قبضے میں لینے کیلئے کئی قوانین بنائے تھے۔ آج یہ کام مودی سرکار کرنے کی کوشش کررہی ہے۔