این سی پی (شرد)کی رکن پارلیمان فوزیہ خان نے وقف بورڈ کی ممبر رہنے سے لے کر وقف کی وزارت سنبھالنے تک کے اپنے تجربات کی بنیاد پرمودی حکومت کے وقف بل کو مسترد کیا
EPAPER
Updated: April 10, 2025, 9:59 AM IST | New Delhi
این سی پی (شرد)کی رکن پارلیمان فوزیہ خان نے وقف بورڈ کی ممبر رہنے سے لے کر وقف کی وزارت سنبھالنے تک کے اپنے تجربات کی بنیاد پرمودی حکومت کے وقف بل کو مسترد کیا
چیئر مین صاحب، اس بل کے عنوان میں بڑے بڑے الفاظ لکھے گئے ہیں — ’اصلاح‘، ’بااختیار بنانا‘، ’ترقی دینا‘۔ بظاہر تو یہ الفاظ بہت بھلے لگتے ہیں، دل کو خوش کر دینے والے لیکن صد افسوس! حقیقت بالکل برعکس ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ وقف بورڈ میں اصلاحات کی ضرورت نہیں ہے — یقیناً ہے! بلکہ اشد ضرورت ہے! میں خود مہاراشٹر میں وقف کی وزیر رہ چکی ہوں، چار برسوں سے وقف بورڈ کی ممبر ہوں اور اسی لئے میں یہ بات پورے تجربے اور مشاہدے کی بناء پر کہہ رہی ہوں ۔ اس وقت وقف بورڈ کے سامنے تین بڑے مسئلے ہیں، پہلا ہے وقف کی زمینوں پرقبضہ، دوسرا ہے بدعنوانی اور تیسرا مسئلہ ہے کہ غیرقانونی سرکاری قبضہ ۔ ان تینوں سے نمٹنے کے لیے وقف بورڈ کو حکومت کے تعاون، قانونی تحفظ اور مضبوط ڈھانچے کی ضرورت ہے۔ لیکن، افسوس، اس بل میں وہ نیت ہی نظر نہیں آتی۔ اگر واقعی نیت اصلاحات کی ہوتی تو آپ وقف جائیدادوں سے قبضہ ہٹانے کے لئے سخت تجاویز پیش کرتے۔ سروے کمشنرس کو اختیارات دیتے۔ بدعنوانی روکنے کے لئے سخت سزا کا بندوبست کرتے۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔
کل تک وقف قانون میں جو جرم ناقابل ضمانت اور سنگین تھاآج آپ اسے قابل ضمانت اور ناقابل گرفت بنا رہے ہیں! اور حیرت تو اس بات پر ہے کہ وقف بورڈ کی آمدنی کا جو حصہ اسے ملتا تھا — سات فیصد — وہ بھی آپ کم کر کے پانچ فیصد کر رہے ہیں۔ بتائیے، جب بورڈ کے پاس آمدنی ہی نہیں ہوگی تو کیا مسجدیں، درگاہیں، قبرستان اور عاشور خانے چیریٹی سے چلیں گے؟
چیئر مین صاحب میں آپ کی توجہ اس بات پر بھی دلانا چاہوں گی کہ اگر آپ واقعی اصلاح چاہتے ہیں تو وقف بورڈس کے لئے دفاتر، اسٹاف اور انفراسٹرکچر فراہم کرتے لیکن بورڈ کی خودمختاری کو ختم کئے بغیر! مگر آپ نے تو سیدھا اختیار حکومت کے ہاتھ میں دے دیا — یعنی اب فیصلہ سرکار کرے گی کہ وقف کی زمین کس کے ہاتھوں بیچنی ہے!
میں پوچھتی ہوں کیا غیرمسلم ممبران کو وقف بورڈ میں شامل کرنے سے بورڈ بااختیار ہو جائے گا؟ کیسی عجیب منطق ہے ؟ اور پھر آپ کہتے ہیں کہ وقف بورڈ ایک مذہبی ادارہ نہیں ہے! جو ادارہ مسجد، قبرستان، عاشور خانے، درگاہیں چلاتا ہے — وہ مذہبی نہیں ہے؟ جس کی جائیدادیں کسی نے مذہبی مقصد کے لئے وقف کی ہیں — وہ غیرمذہبی ہے؟ اگر کسی کے گھر میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے تو مدد کی شکل یہ نہیں ہوتی کہ آپ اس کے گھر کے مالک بن جائیں! لیکن آج حکومت یہی کر رہی ہے۔ — وقف بورڈ کی خودمختاری کو ختم کر کے اس پر مکمل قبضہ! سوال یہ ہےکہ کیا حکومت ہی خود سب سے زیادہ وقف جائیدادوں پر قابض نہیں ہے؟
سچر کمیٹی نے کہا تھا — وقف کی زمینوں پر سب سے زیادہ قبضہ ریاستی حکومتوں کا ہے اور اب آپ انہی کو پورا اختیار دے رہے ہیں کہ وہ اپنے قبضے کے بارے میں خود ہی فیصلہ کرلیں۔ یعنی وہی جج بن جائیں کیا یہ انصاف ہے؟ کیا یہی اقلیتوں کو بااختیار بنانا ہے؟ اس بل کے مشمولات کو دیکھنے کے بعد مجھے بچپن کی ایک کہانی یاد آتی ہے — کہ خوانخوار بھیڑیا، بکری کی کھال اوڑھ کر شکار کرنے آتا تھا۔ یہی حال اس بل کا ہے — اوپر سے اصلاحات کا دعویٰ، اندر سے مکمل کنٹرول اور قبضہ۔ چیئر مین محترم ، یہ بل اقلیتوں کی خودمختاری پر حملہ ہے، یہ بل ان کے آئینی حقوق پر ضرب ہے۔ اس کی وجہ سے آئین کے — آرٹیکل ۲۵،۲۶،۲۹؍ اور ۳۰؍کی کھلی خلاف ورزیہو رہی ہے۔ میں یہ بات بھی واضح کردینا چاہتی ہوں کہ اس بل کی وجہ سےمسلمانوں کے حقوق پر ضرب نہیں لگے گی بلکہ جلد ہی سکھ، عیسائی، پارسی اور بودھ تمام اقلیتیں اس سے متاثر ہوں گی۔ آج ہماری باری ہے، کل ان کی ہوگی۔ آپ غریب مسلمانوں کی بھلائی کی بات کرتے ہیں؟ کیسے کریں گے؟۱۳؍ ہزار ایکڑ زمین جو فوج کے لئے محفوظ تھی وہ آپ نے اڈانی جی کو دے دی، بابا رام دیو کو دے دی، روی شنکر جی کو دے دی اور کہتے ہیں، مسلمانوں کا بھلا کریں گے؟ کیا ان وقف کی زمینوں کو بھی کارپوریٹ کے حوالے کر کے ان کی بھلائی کریں گے؟ اگر واقعی ارادہ ہوتا تو بجٹ میں ان کی فلاح کی فکر کیجئے، تعلیم، روزگار، ہاؤسنگ دیجئے! مگر زمین ہتھیانے کا بہانہ نہ بنائیے! آخر میں میں صرف ایک سوال رکھنا چاہتی ہوں۔ — یہاں ایک معزز ممبر نے کہا کہ ایک یہ کمیونٹی آج مافیا کے ساتھ ہے۔ تو میں پوچھتی ہوں — جنسی زیادتی کےمجرموں ساتھ کھڑے لوگ آپ کے لئے فرشتے ہیں؟