Inquilab Logo

امریکی فوج کے انخلا سےجارج بش کا دل ٹوٹ گیا

Updated: July 16, 2021, 8:20 AM IST | washington

کبھی افغانستان کی جنگ کو ’صلیبی جنگ‘ قرار دے کر طالبان پر حملہ کرنے ولے سابق امریکی صدر نے ۲۰؍ سال پرانا الزام دہرایا کہ طالبان دنیا کے سب سے بے رحم لوگ ہیں اور افغانستان کی خواتین اور لڑکیوں کو ان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔فوج کے انخلا کو پوری طرح سے غلط فیصلہ قرار دیا

Former US President George W. Bush started the 20-year war (file photo)
سابق امریکی صدر جارج بش نے اس ۲۰؍ سالہ جنگ کی شروعات کی تھی (فائل فوٹو)

 کبھی دنیا کو ’’ یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا طالبان کے ‘‘ کہہ کر متنبہ کرنے والے امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش  نے امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کو ایک غلط فیصلہ قرار دیا ہے  اور وہاں کی خواتین اور لڑکیوں کے تحفظ کے تعلق سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کی وجہ سے ان کا دل ٹوٹ گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ جارج بش ہی تھے جن کے دور صدارت میں امریکہ کی قیادت میں  نیٹو افواج نےاکتوبر ۲۰۰۱ء میں افغانستان پر حملہ کیا تھا۔
  سابق امریکی صدر نے مشہور میڈیا ہائوس ڈی ڈبلیو ( ڈیلچے ویلے) کو انٹرویو دیتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ کے اس فیصلے پر تنقید کی۔ جارج بش یوں تو انجیلا میرکل  کے تعلق سے ایک خصوصی انٹرویو میں حصہ لے رہے تھے جس میں جرمن چانسلر کے دور حکومت میں کئے گئے اقدامات اور  ان کے امریکہ سے تعلقات کے بارے میں سوالات کئے جا رہے تھے۔ اسی دوران اینکر نے ان سے افغانستان  سے متعلق سوال کیا جس پر جارج بش نے کہا کہ ’’ انجیلامیرکل نے افغانستان میں فوج بھیجنے کی حمایت کی تھی کیونکہ وہ وہاں پر خواتین کی آزادی  اور لڑکیوں کی تعلیم کو یقینی بنانا چاہتی تھیں۔ 
  اینکر نے جب ا ن افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کی فوج کے انخلا کے تعلق سے سوال کیا تو انہوں نے کہاکہ ’’ یہ درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے افغانستان کی خواتین اور لڑکیاں ایک بار پھر مشکل میں آجائیں گی۔‘‘ جب اینکر نے پوچھا ’’تو کیا یہ فیصلہ غلط ہے؟‘‘ تو سابق صدر نے جواب دیا ’’ بالکل، یہ فیصلہ صحیح نہیں ہے۔ افغانستان  کی خواتین کو طالبان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔‘‘ انہوں نے ۲۰؍ سال پہلے والا الزام دہرایا کہ ’’ وہ (طالبان) سب سے بے رحم لوگ ہیں جو دوبارہ اسی طرح کے مظالم شروع کر دیں گے۔ ‘‘ جارج بش نے جذباتی انداز میں کہا’’ اس فیصلے سے میرا دل ٹوٹ گیا ہے۔‘‘ 
  واضح رہے کہ ۲۰۰۱ء ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے مبینہ کلیدی ملزم اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کے جرم میں افغانستان کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس وقت جارج بش امریکی صدر تھے جنہوں نے افغانستان کی جنگ کو ’ ہماری صلیبی جنگ ‘ قرار دیا تھا جس پر دنیا بھر میں ان پر تنقیدیں ہوئی تھیں۔  یہ جارج بش ہی تھے جنہوں نے دنیا کو ’اسلامی دہشت گردی‘ کی مذموم اصطلاح دی تھی۔  انہوں نے دنیا کے تمام ممالک سے کہا تھا کہ وہ یا تو امریکہ کے ساتھ ہیں یا طالبان کے ساتھ ہیں (یعنی وہ غیر جانبدار نہیں رہ سکتے) خاص کر پاکستان کو جارج بش نے دھمکایاتھا کہ ’’ پاکستان ہمیں ہاں یا نہ میں جواب دےکہ وہ ہمیں طالبان کے خلاف حملے کیلئے اپنی زمین استعمال کرنے دے رہا ہے یا نہیں۔‘‘ 
 اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف نے فوراًامریکہ کا ساتھ دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔  بعد میں پرویز مشرف نے اپنی سوانح حیات میں لکھا تھا کہ جارج بش نے انہیں دھمکایا تھا کہ اگر افغانستان پر حملے میں انہوں نے امریکہ کی مدد نہیں کی تو وہ پاکستان کو ’پتھر کے دور‘ میں پہنچا دیں گے۔  ۲۰۰۸ء میں جارج بش کا دور اقتدار ختم ہوتے ہوتے خود انہیں احساس ہو چکا تھا کہ امریکہ افغانستان کی جنگ میں پھنس چکا ہے  اور اب وہاں سے نکلنا اتنا آسان نہیں ہے ۔ اس لئے جارج بش کے زمانے ہی میں ’کچھ اچھے طالبان ‘ سے گفتگو کی کوشش شروع ہوئی تھی۔ لیکن وہ ’اچھے  طالبان‘  امریکہ کو میسر نہیں آئے اور بالآخر ۲۰۱۳ء میں شروع کی گئی کوششوں کے بعد ۲۰۱۸ء میں ڈونالڈ ٹرمپ دوٹوک فیصلہ کیا کہ وہ افغانستان سے فوج واپس بلا لیں گے اور انہوں نے طالبان سے امن معاہدہ کر لیا۔
  حیرانی کی بات یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ اور جارج بش دونوں ایک ہی پارٹی یعنی ری پبلکن سے تعلق رکھتے ہیں۔ جنگ کا فیصلہ جارج بش نے کیا تھا اور صلح کا فیصلہ انہی کی پارٹی کے ٹرمپ نے لیکن اس وقت جارج بش نے کوئی بیان نہیں دیا اور وہ ٹرمپ کی جانب سے پہلے طالبان سے گفتگو اور  امن معاہدے پر دستخط   کے بعد وعدے کے مطابق امریکی فوج کی واپسی پر خاموش رہے ۔ اب جبکہ ڈیموکریٹ پارٹی کے جو بائیڈن اقتدار میں ہیں اور وہ ٹرمپ ہی کے معاہدے کے مطابق فوج واپس بلانے کا عمل مکمل کر رہے ہیں تو جارج بش ’دل ٹوٹنے‘ کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ جس اینکر نے جارج بش کا انٹرویو لیا خود اس نے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ’’ یہ سابق امریکی صدر کا جوبائیڈن پر تنقید کرنے کا ایک حیلہ ہے ورنہ فوج واپس بلانے کا فیصلہ تو ڈونالڈ ٹرمپ کا تھا۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK