گزشتہ دنوں حج ہاؤس سے جے جے اسپتال جانا تھا۔ رپیڈو بائک بُک کی ۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک بائک سوار حاضر ہوگیا۔
کالج طالب علم علی مہدی جو پڑھائی کی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے ریپیڈو بائک چلاتا ہے۔ تصویر:آئی این این
گزشتہ دنوں حج ہاؤس سے جے جے اسپتال جانا تھا۔ رپیڈو بائک بُک کی ۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک بائک سوار حاضر ہوگیا۔ جوں ہی بائک آگے بڑھی میں نے بائک سوار کی جانب توجہ دی تو وہ مجھے کافی سلجھا ہوا نظر آیا۔ چہرہ پر ماسک لگا ہوا تھا۔ میں نے حسب عادت پوچھ لیا: ’’بیٹا کیا مستقل یہی کام کرتے ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’نہیں انکل، میں کالج پڑھتا ہوں، بس ایسے ہی جیب خرچ کیلئے چند روز سے یہ خدمت انجام دے رہا ہوں۔‘‘ میں نے کہا: ’’جیب خرچ کے چکر میں کہیں تمہاری پڑھائی کا نقصان نہ ہو، پیسوں کی للک بُری چیز ہے۔‘‘ اس نے کہا: ’’نہیں انکل، میں صرف ظہر تا عصر یا کبھی کبھی مغرب تک یہ کام کرتا ہوں، اس کے بعد جم جاتا ہوں اور پھر پڑھائی کرتا ہوں، بی کام کے فائنل ائیر میں ہوں، بائک ایسے ہی گھر پر کھڑی رہتی تھی، میرے ایک دوست نے مجھے اس بابت بتایا۔ وہ گھر خرچ کے علاوہ اپنی پڑھائی اور دیگر ضروریات اسی طرح بائک چلا کر پوری کرتا ہے، اسی نے اولا، اوبیر یا ریپیڈو میں بائک خدمات کے رجسٹریشن میں میری مدد کی۔‘‘ اس نوجوان میں اتنی سادگی تھی کہ ساری باتیں ایک ہی سانس میں کہہ گیا۔
تھوڑی دیر خاموشی رہی مگر پھر اُس نے اپنے ہی طور پر کہا: ’’الحمد للہ، ظہر سے مغرب تک سات سو تا ایک ہزار روپے کما لیتا ہوں۔‘‘ اس گفتگو کے دوران مَیں نے محسوس کیا کہ وہ بائک چلاتے وقت سگنل اور ٹریفک قوانین کا برابر خیال رکھ رہا تھا اور سنبھل کر بائک چلا رہا تھا۔ قریب سے فراٹے بھرتے، سائلنسر کی آواز سے شور مچاتے اور والدین کی کمائی کو دھویں میں اڑاتے کئی بائک سوار گزر گئےمگر اس نوجوان نے احتیاط کا دامن تھامے رکھا۔ جے جے سگنل پر ایک بائک سوار اپنی گاڑی کو آڑی ترچھی کرتا ہوا بغیر ہیلمٹ پہنے سنگل توڑتے اور پولیس کو چکمہ دیتے ہوئے اتنی تیزی سے گزرا کہ ٹریفک حوالدار کوشش کے باوجود اس کی نمبر پلیٹ کا فوٹو نہیں لے سکا۔
ہم جے جے اسپتال کی سینٹرل کینٹین پہنچ گئے تھے۔ میں نے رپیڈو ڈرائیور کا چہرا دیکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا: ’’بیٹا، شرمانے کی ضرورت نہیں یہ حلال رزق ہے۔‘‘ اُس نے تھوڑا توقف کیا مگر پھر یہ کہتے ہوئے چہرہ سے ماسک ہٹا دیا کہ اللہ کا شکر ہے مجھے یہ کام کرنے کی ضرورت نہیں، میں خوشحال گھر سے ہوں، خالی بیٹھنے سے کچھ کرنا بہتر ہے اس لئے یہ کررہا ہوں، میری پڑھائی کی ساری ضرورتیں اس سے پوری جائینگی۔‘‘ اس نے خاموشی سے اپنے موبائل سے کیو آر کوڈ نکالا اور میں نے اسے ۲۲؍ روپے بھیج دیئے۔ یہ کرایہ ٹیکسی سے تو بہت کم تھا۔ اُس نے موبائل کے میسیج کے ساتھ ہی شکریہ ادا کیا اور آگے بڑھتے بڑھتے بتایا کہ وہ ظہر سے اُس وقت تک کتنے روپے کما چکا تھا۔ میرے استفسار پر اُس نے اپنا نام علی مہدی بتایا اور یہ بھی کہا کہ اگر کسی کو ضرورت ہو تو میں اسے سمجھا سکتا ہوں کہ کس طرح اولا، اوبر اور ریپیڈو میں بائک رجسٹر کی جاتی ہے۔
اُس کے خدا حافظ کا جواب دیتے ہوئے جب مَیں آگے بڑھا تو میرے ذہن پر یہی خیال غالب تھا کہ مسلم نوجوانوں کو لاپروا، غیر ذمہ دار اور تعمیری سرگرمیوں سے دور سمجھنا کتنا ہی حقیقت کے قریب ہو مگر اسی ملت میں علی مہدی جیسے نوجوان بھی ہیں جو اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں اور اپنا فاضل وقت دو پیسے کمانے پر صرف کررہے ہیں۔ ایسے ہی نوجوانوں کو دیکھ کر مایوسی قریب نہیں آنے پاتی، اُمید کا چراغ لوَ دیتا رہتا ہے۔