Inquilab Logo

سال ۲۰۲۳ اور ۲۰۲۴ء کے دوران بے روزگاری میں مزید اضافے کا خدشہ ہے

Updated: January 19, 2023, 12:00 PM IST | Mumbai

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق آئندہ کم اجرت اور کم معیاری سہولت کے ساتھ کام کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا، دنیا بھر میں مزید ۳۰؍ لاکھ افراد بے روزگار ہوں گے

The problems of workers are going to increase in the near future (file photo)
آئندہ کچھ عرصے میں مزدوروں کی مشکلات اور بڑھنے والی ہیں( فائل فوٹو)

محنت کشوں کی بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے اپنے مستقبل کے اندازوں میں کہا ہے کہ موجودہ اور آئندہ سال یعنی ۲۰۲۴ء روزگار کے تعلق سے  بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ آئی ایل او نے خبردار کیا ہے کہ عالمی سطح پر معاشی سست روی کے نتیجے میں لاکھوں ورکروں کو کم اجرت اور کم تر معیار کو قبول کرنا پڑے گا۔آئی ایل او کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ’’ ورلڈ ایمپلائمنٹ اینڈ سوشل آؤٹ لگ: ٹرینڈز ۲۰۲۳ء  ‘‘ یعنی ۲۰۲۳ء  میں عالمی اور سماجی پیش منظر سے متعلق اپنے اندازوں میں آئی ایل او نے پیش گوئی کی ہے کہ اس سال عالمی سطح پر بے روزگاروں  میں ۳۰؍  لاکھ نفوس کا اضافہ ہونے کے بعد یہ تعداد ۲۰؍  کروڑ ۸۰؍  لاکھ تک پہنچ جائے گی اور یہ صورتحال ۲۰۲۴ء  میں بھی برقرار رہے گی۔آئی ایل او کی کام کے معیار سے متعلق ڈائریکٹر مینولا ٹومی نے کہا ہے کہ ملازمتوں کی تعداد اور معیار دونوں میں ہی کمی ہو گی اور یہ کہ تنخواہوں میں کمی کے ساتھ ساتھ کام کرنے کے حالات میں بھی تنزلی متوقع ہے۔
 ٹومی کا کہنا تھا کہ خدشہ ہے کہ اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک ہوں گے اور عالمی وبا اور دنیا بھر میں معاشی سست روی کے دوہرے اثرات کے باعث غربت میں اضافہ ہو گا اور آنے والے دنوں میں یہ صورت حال مزید ابتری کی طرف جائے گی۔ آئی ایل او کی کام کے معیار سے متعلق ڈائریکٹر مینولا ٹومی نے کہا ہے کہ ملازمتوں کی تعداد اور معیار دونوں میں ہی کمی ہو گی اور یہ کہ تنخواہوں میں کمی کے ساتھ ساتھ کام کرنے کے حالات میں بھی تنزلی متوقع ہے۔ٹومی کا کہنا تھا کہ خدشہ ہے کہ اس صورت حال سے سب سے زیادہ متاثر کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک ہوں گے اور عالمی وبا اور دنیا بھر میں معاشی سست روی کے دوہرے اثرات کے باعث غربت میں اضافہ ہو گا اور آنے والے دنوں میں یہ صورت حال مزید ابتری کی طرف جائے گی۔رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ زندگی گزارنے کے اخراجات میں اضافہ ہو گا جو مزید لوگوں کو غربت کی جانب دھکیل دے گا جس سے امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھے گی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تقریباً دو ارب افراد، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق ترقی پذیر ملکوں سے ہے، معیشت کےایسے شعبوں میں کام کریں گے جہاں عمومی طور پر قواعد و ضوابط کی پابندی نہیں کی جاتی۔
 رپورٹ کے مطابق عالمی اقتصادی سست روی ممکنہ طور پر ۲۰۰۴ء سے حاصل ہونے والی ان کامیابیوں کو پلٹ دے گی جو کارکنوں کو بے ضابطہ معیشت کے چنگل سے نکالنے میں حاصل ہوئی ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اپنی بے روزگار ہونے کی اطلاع دینے والے لاکھوں افراد کے علاوہ گزشتہ سال ۴۷؍ کروڑ ۳۰؍ لاکھ افراد نے روزگار ڈھونڈنے کی کوششیں ترک کر دی تھیں۔ جس کی وضاحت یوں کی گئی ہے کہ وہ یا تو روزگار ملنے کے امکان سے مایوس ہو گئے تھے یا وہ دوسری ذمہ داریوں میں گھرے ہوئے تھے مثال کے طور پر خاندان کی دیکھ بھال کرنا وغیرہ۔
   `ٹومی کا کہنا تھا کہ ۱۹۷۰ء کے عشرے کے بعد سے پہلی مرتبہ بلند افراط زر اور کم پیداواردونوں کے ایک ساتھ عمل میں آنے سے پیداواری عمل اور مارکیٹ کی بحالی کے لیے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔آئی ایل او کی ڈائریکٹر ٹومی کا مزید کہنا تھا کہ یوکرین کی جنگ، جغیرافیائی سیاسی کشیدگیاں، مال برداری کے نظاموں میں خلل، بلند افراط زر، سخت تر ہوتی ہوئی مالیاتی پالیسیاں اورغیر یقینی کی عمومی کیفیت، یہ سب عوامل مل کر محنت کی منڈی کے پیش منظر کو مایوس کن بنانے میں کردار ادا رکر رہے ہیں۔آئی ایل او کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ۱۵؍سے ۲۴؍ برس کی عمر کے نوجوانوں کو ملازمت ڈھونڈنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہ امکان تین گنا زیادہ ہے کہ وہ بالغ افراد کے مقابلے میں روزگار حاصل نہیں کر پائیں گے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں نوجوان خواتین کو زیادہ خراب صورت حال درپیش ہے اور یہ کہ گزشتہ سال میں ۷۲ء۳؍فی صد مردوں کے مقابلے میں صرف ۴۷ء۴؍ فی صد خواتین عالمی لیبر مارکیٹ کا حصہ بنیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK