Inquilab Logo

ریاست میں ڈی ایڈ کالجوں میں داخلے کے خواہشمندوں میں متواتر کمی آ رہی ہے

Updated: July 21, 2023, 10:48 AM IST | saadat khan | Mumbai

گجراتی، مراٹھی اور ہندی میڈیم کے تقریباً تمام ڈی ایڈ کالج بند ہو چکے ہیں۔ اردو میڈیم کے کالجوں میں اب بھی طلبہ کی کوئی کمی نہیں ہے ، یہاں داخلے برابر ہو رہے ہیں

Now there are very few people left who want to join the teaching profession (file photo).
اب بہت کم لوگ رہ گئے ہیں جو تدریسی پیشے سے وابستہ ہونا چاہتے ہیں( فائل فوٹو)

گزشتہ ۱۰۔۱۲؍ سال  سے  ڈی ایڈ پاس  ٹیچرس کی بے رو زگاری اور پریشانی دیکھ کراب نوجوان تدریس کا پیشہ اختیارکرنے سے گریزکررہےہیں۔ یہی وجہ ہے کہ  اس سال بھی ڈی ایڈ میں داخلہ لینے والوںکی تعداد گزشتہ برسوں کی طرح کم دکھائی دے رہی ہے۔  امسال ہونےوالے ڈی ایڈایڈمیشن کی پہلی میرٹ لسٹ  ظاہرکی گئی ہے جس میں ۶؍ ہزار ۷۲۸؍ اُمیدوار ںکا نام آیاہےلیکن ان میں سے صرف ۳؍ہزار ۹۴۷؍اُمیدوارو ںنے داخلہ کنفرم کروایاہے۔اگر یہی حال رہاتو امسال بھی متعدد ڈی ایڈ کالج بند ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک بات ہے اُردومیڈیم کی تو اُردومیڈیم کے کالجوںمیں دیگر میڈیم کے مقابلے داخلہ لینے والوں کی  تعداد بہتر ہے۔   
  انجمن اسلام ڈی ایڈ کالج ماہم کی پرنسپل روبینہ شیخ نےبتایاکہ ’’ یہ ضرور ہےکہ ڈی ایڈ کالج میں داخلہ لینےوالوںکی تعداد میں کمی آئی ہے لیکن جہاں تک اُردو میڈیم  کالجوں کامعاملہ ہے وہ دیگر کالجوں سے بہترہیں۔آج بھی   اُردومیڈیم کے ڈی ایڈ کالجوںمیں گنجائش کےمطابق طلبہ داخلہ لے رہےہیںلیکن مراٹھی ، ہندی اور گجراتی میڈیم   کا برا حال ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ’’ گجراتی اور ہندی میڈیم کے ڈی ایڈ کالج تقریباً بند ہو چکے ہیں۔ جبکہ مراٹھی میڈیم کے کئی کالج بندہونےکےدہانے پر ہیں۔صرف انگریزی اور اُردو کے کالجوںمیں طلبہ کی گنجائش کے مطابق داخلے ہوجاتےہیں۔ ‘‘ روبینہ شیخ نے  بتایاکہ ’’ہمارے کالج میں ۳۰؍ طلبہ کی گنجائش ہے لیکن فی الحال فرسٹ ائیر میں ۱۲؍اور سیکنڈائیر میں ۱۷؍ طلبہ ہیں۔ حالانکہ ہماراکالج امدادیافتہ ہے ۔ہم طلبہ سے فیس کے نام پر ایک پیسہ نہیں لیتے ۔بلکہ انہیں ہر طرح کی سہولت فراہم کی جاتی ہے ۔ اس کے باوجودطلبہ ڈی ایڈ کی طرف مائل نہیں ہیں۔‘‘ ان کے مطابق’’ اس کی کئی وجوہات ہیں ایک تو ڈی ایڈ کلیئر کرنےکےبعد ٹی ای ٹی پاس کرنے اور دوسرے شکشن سیوک کی حیثیت سے ۳؍سال ۶؍ہزارروپے تنخواہ پر ملازمت کرنے کی شرط ہے۔ اسی طرح اور بھی مسائل ہیں جن کی وجہ سے طلبہ اب ڈی ایڈ کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ ‘‘
  آر سی ماہم ڈی ایڈ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر خالد خان نےبتایاکہ ’’اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ڈی ایڈ کالجوںمیں طلبہ کی تعداد ہرسال کم ہورہی ہےلیکن اُردو میڈیم کے کالجوں میں اب بھی طلبہ داخلہ لے رےہیں جس کی واضح مثال ہمارا کالج ہے ۔ ہمارے یہاں ۳۰؍طلبہ کی گنجائش ہے جو ہر سال پوری ہوجاتی ہے۔‘‘خالد خان کا کہنا ہے’’ گزشتہ سال تو داخلے   مکمل ہوجانےکےباوجود ۱۵۔۲۰؍ طلبہ ویٹنگ لسٹ میں تھے۔  اسی طرح امام باڑہ ڈی ایڈ کالج میں بھی گنجائش کےمطابق ۶۰؍ طلبہ ہر سال داخلہ لے رہےہیں لیکن دیگر میڈیم کے کالجوں کا مسئلہ سنگین ہے۔ ‘‘ انہوںنے  بتایاکہ ’’ اُردو میڈیم کے جو غیر امداد یافتہ ڈی ایڈ کالج ہیں ۔ ان میں داخلہ کامسئلہ ضرور ہے لیکن امداد یافتہ اور سرکاری اُردو ڈی ایڈ کالج میں کوئیمسئلہ نہیں ہے۔‘‘ 
 واضح رہےکہ ممبئی سمیت ریاست  میں ۱۶؍ سرکاری ، ۹۷؍ امدادیافتہ اور۴۶۲؍ غیر امداد یافتہ ڈی ایڈ کالج ہیں ۔ مجموعی طورپر ان  ۵۷۵؍ کالجوںمیں ۳۱؍ ہزار ۲۰۷؍ سیٹوں کی گنجائش ہے  جن کیلئے صرف ۱۳؍ہزار ۷۹۸؍ درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ ان سیٹوں کیلئے داخلے کی پہلی میرٹ لسٹ میں ۶؍ہزار ۷۲۸؍ سیٹوں کیلئے اُمیدوارو ںکے نام کا اعلان کیاگیاتھا جن میں سے صرف ۳؍ہزار ۹۴۷؍ اُمیدواروںنے ہی داخلہ کنفرم کروایا ہے ۔  دو سرے مرحلے کے داخلے  ۱۸؍جولائی سے شروع ہوئے ہیں۔ اس رائونڈ میں ۴؍ہزار ۷۸۸؍ اُمیدو اروںکا نام لسٹ میں شامل ہے۔ ۲۱؍جولائی تک ان اُمیدواروںکو داخلہ کنفرم کرواناہے۔ ڈی ایڈ میں داخلہ لینےوالے اُمیدوارو ںکی اتنی کم تعداد کی متعدد وجوہات ہیں۔ایک تو ریاست کے نجی غیر امداد یافتہ اسکولوںمیں اساتذہ معمولی تنخواہ پر ملازمت کرنے پر مجبو ر ہیں۔ دوسری طرف ضلع پریشد اور امداد یافتہ اسکولوںمیں ۶۰۔۷۰؍ ہزار اسامیوںکے خالی ہونے کےباوجود محکمہ تعلیم ان اسامیوںکیلئے اساتذہ کی تقرری نہیں کررہی ہے ۔

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK