Inquilab Logo

حجاب پر پابندی کیخلاف آج دلائل کا آخری دن

Updated: September 20, 2022, 10:11 AM IST | new Delhi

مسلم طالبات کے حق میں دُشینت دوے کی  مدلل گفتگو، سابقہ فیصلوں اور آئین ساز اسمبلی کے مباحثوں کا حوالہ دیا، کورٹ کو آگاہ کیا کہ  اقلیتوں کو حاشیہ پر لگانے کی دانستہ کوشش ہورہی ہے

Students in Karnataka protesting against the ban on hijab. (file photo)
 حجاب پر پابندی کے خلاف کرناٹک میں طالبات احتجاج کرتے ہوئے۔ ( فائل فوٹو)

: کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے خلاف  پٹیشن پر سپریم کورٹ میں پیر کو ۷؍ ویں دن  کی  سماعت میں  سینئر وکیل ایڈوکیٹ دُشینت دوے نے مدلل  انداز میں حجاب پہننے کے مسلم طالبات کے حق کا دفاع کیا اور کہا کہ اگر ایک مسلم خاتون کو یہ لگتا ہے کہ حجاب پہننا اس کیلئے فائدہ مند ہے تو کوئی طاقت یا کورٹ اس کے برخلاف نہیں کہہ سکتی۔‘‘ انہوں  نے سپریم کورٹ  کے ہی سابقہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کرناٹک ہائی کورٹ کی دلیل کو بھی خارج کردیا کہ حجاب اسلام کا لازمی جزو نہیں ہے۔  سپریم کورٹ  میں جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس سدھانشو دھولیا کی ۲؍  رکنی بنچ میں  سماعت کا سلسلہ منگل کو صبح ۱۱؍ بجے پھر شروع ہوگا۔ کورٹ نے واضح کیا ہے کہ  دوپہر ایک بجے تک دشینت دوے اپنے  دلائل پیش کریں گے ،اس کے بعد عرضی گزاروں  (یعنی مسلم طالبات) کی جانب سے مزید کسی کو دلائل پیش کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ 
امبیڈکر اور پٹیل کے اندیشے صحیح  ثابت ہورہے ہیں
  دشینت دوے نے آئین کے آرٹیکل  ۲۵؍ کے تحت  مذہبی آزادی  کے حق کا حوالہ دینے کے ساتھ ہی ساتھ آئین ساز کونسل  میں اس ضمن میں ہونے والے مباحثوں کو بھی تفصیل سے پیش کیا۔ انہوں نے  ملک میں اقلیتوں کو حاشیہ پر لگانے کی حالیہ کوششوں سے بھی کورٹ کو آگاہ کیا اور کہا کہ  پہلے ’لوجہاد‘ کے نام پر تنازع کھڑا کیاگیا اور اب مسلم طالبات کو تعلیمی ادارہ میں  حجاب پہننے کے حق سے محروم کیا جارہاہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقلیتوں کو حاشیہ پر لگانے پورا ایک پیٹرن نظر آتا ہے۔ آئین ساز اسمبلی  کے مباحثوں کا حوالہ دیتے ہوئے ایڈوکیٹ دشینت دوے نے  نشاندہی کی کہ بابا صاحب امبیڈکر اور سردار پٹیل کے اندیشے صحیح  ثابت ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر ایک ہندو کو مسلمان سے شادی کرنے کیلئے  مجسٹریٹ سے اجازت لینی پڑے تو یہ   کثرت میں وحدت کہاں رہ گئی؟‘‘ 
  حجاب پر پابندی قانونی بدنیتی کے مترادف
  دشینت دوے جو منگل کوبھی حجاب کے حق میں دلائل پیش کریں گے،  نےپیر کی شنوائی  میں کہا کہ  بھلے ہی یہ یونیفارم کا معاملہ ہو مگر یہ دراصل مسلم طلبہ کو یہ کہنے کے مترادف ہے کہ آپ کو کن چیزوں کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ قانونی بدنیتی کا معاملہ ہے۔  یہ ایسا ہے جیسے ہم اقلیتی طبقے کیلئے طے کریں گے کہ وہ کیا کرسکتے ہیں اور کیا نہیں۔‘‘اس موقع پر انہوں  نے قانون ساز کونسل میں اقلیتوں کی کمیٹی کے چیئر مین سردار ولبھ بھائی پٹیل کی تقریر کا حوالہ دیا جنہوں نے کہاتھا کہ ’’اقلیتوں  کیلئے اس سے بہتر اور کیا  ہوسکتاہے کہ انہیں اکثریتی طبقے پر  بھر پور اعتماد ہو اور اکثریتی طبقہ یہ محسوس کرے کہ اگر اس کے ساتھ وہی برتاؤ ہوتو وہ کیسا محسوس کریگا۔‘‘
کیا حجاب سے قومی سلامتی کو کوئی خطرہ ہے؟
 دشنیت دوے نے کہا کہ ’’جس طرح سکھوں کیلئے پگڑی اہم  ہے،اسی طرح مسلم خواتین کیلئے حجاب اہم ہے۔اس میں  کوئی برائی نہیں ہے۔ کوئی تلک لگانا چاہتا ہے، کوئی کراس پہنتا ہے، ہر کسی کو حق ہے اور یہی سماجی زندگی کی خوبصورتی ہے۔‘‘ انہوں  نے سوال کیا کہ کیا حجاب پہننے سے ملک کی سلامتی اور یکجہتی کو کوئی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے؟  جواب میں جسٹس دھولیا نے کہا کہ ’’ایسا تو کوئی نہیں کہہ رہا، (ہائی کورٹ کا) فیصلہ بھی ایسا نہیں  کہتا۔‘‘سینئر ایڈوکیٹ نے سپریم کورٹ کے ہی سابقہ  فیصلوں کا حوالہ دیکر یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہائی کورٹ  نے ’’مذہب کے لازمی جزو‘‘ کا جو جواز پیش کرکے پٹیشن  حجاب پر پابندی کو برقرار رکھا ہے وہ جواز ہی  غلط ہے۔ انہوں  نے اس کیلئے   سپریم کورٹ کے شیرور مٹھ فیصلے کا حوالہ دیا۔   دوے نے نشاندہی کی کہ کورٹ نے شیرور مٹھ کیس میں اٹارنی جنرل کی مذہب کے لازمی  والی دلیل کو خارج کردیاتھا۔ 

دشنیت دوے جو سپریم کورٹ باراسوسی ایشن کے سابق صدر بھی رہ چکے ہیں،  نے شیرور مٹھ فیصلے کے حوالے سے دوٹوک لہجے میں کہا کہ ’’اگر مسلم خاتون یہ سمجھتی ہے کہ حجاب اس کیلئےمذہبی طور پر فائدہ  مند ہے تو کوئی طاقت یا کوئی عدالت اس بر خلاف نہیں کہہ سکتی۔‘‘ انہوں نے  رتی لال گاندھی کیس کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شبہ کی صورت میں کورٹ کو کامن سینس کا سہارا لینا چاہئے۔  انہوں نے کورٹ سے پوچھا کہ ’’کیا ہم کامن سینس کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ حجاب اسلام میں ضروری نہیں ہے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ہم پسند کریں یا نہ کریں مگر اس سے مسلم طالبات کے حجاب پہننے کے حق پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘ اس سے قبل مذہبی آزادی کو بنیادی حقوق قرار دیتے ہوئے انہوں  نے حجاب پر پابندی عائد کرنے والے  کرناٹک سرکار کے سرکیولر کو بنیادی حقوق سے متصادم قراردیا۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل  ۲۵؍ کے تحت  بنیادی حقوق پر عمل کہیں بھی کیا جاسکتاہے۔ انہوں نے کورٹ کو متوجہ کیا کہ آرٹیکل ۲۵؍ بنیادی حق کو  لفظ ’’آزادانہ طورپر‘‘   کے ساتھ عمل کرنے، کھلے عام اس کا اظہار کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حوالہ دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میرا جو بنیادی حق ہے اس پر عمل میں کہیں بھی کرسکتاہوں، چاہے اپنے بیڈروم میں ہوں یا کلاس روم میں۔‘‘عدالت کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلاتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ نے یہ بھی کہا کہ ’’یور لارڈ شپ (آپ حضرات )ہم شہریوں کے بنیادی حقوق کے محافظ ہی نہیں ہو بلکہ آپ ہی پارلیمانی زیادیوں اور شہری کے درمیان ڈھال کا کام کرسکتے ہو۔‘‘

hijab Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK