• Tue, 30 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

غزہ جنگ کی المناک داستان،آزاد صحافی لیم ٹرانگ کی ’اِنسائیڈغزہ‘ کے نام سے دستاویزی فلم پیش

Updated: October 10, 2025, 3:48 PM IST | Agency | Gaza

بین الاقوامی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے وابستہ صحافی جو جنگ کے شروع میں غزہ میں پھنس کر رہ گئے تھے۔

Independent Journalist Hélène Lam Trong in an area of ​​Gaza. Photo: INN
ایلون لیم ٹرانگ غزہ کے ایک علاقے میں۔ تصویر: آئی این این
بین الاقوامی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے وابستہ صحافی جو جنگ کے شروع میں غزہ میں پھنس کر رہ گئے تھے۔ وہ اپنے کیمرے کی آنکھ سے اسرائیلی جارحیت کو کس طرح غزہ کی تباہی میں بدلتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کیمروں کو عینی شاہد کے طور پر اس دستاویزی فلم میں پیش کیا ہے تاکہ جنگ زدہ غزہ کے ملبے کے ڈھیروں پر اور خیموں میں گزرنے والی زندگی کا اظہار ہو سکے۔ایک آزاد صحافی ایلون لیم ٹرانگ نے ’اِنسائڈ غزہ‘ کے نام سے دستاویزی فلم تیار کی ہے جسے  غیر معمولی دستاویزی فلم ہونے کے ناطے ایوارڈ ملنے جا رہا ہے۔یہ ایوارڈ غزہ میں تعینات اے ایف پی کے ۷؍ میں سے۶؍مستقل نمائندوں کی مشترکہ کاوش کے بدلے میں ملے گا جو انہوں نے غزہ کی اس جنگ کے شروع کے دنوں میں ہی غزہ کے حالات کو اجاگر کرنے کے لیے ممکن بنائی تھی۔
یہ دستاویزی فلم فرینچ جرمن ٹی وی چینل پر ۲؍ دسمبر کو دکھائی جائے گی۔دستاویزی فلم میں دکھایا گیا ہے کہ حماس نے ۷؍ اکتوبر  ۲۰۲۳ءکو اسرائیل پر حملہ کیا۔ جبکہ اسرائیلی جارحیت نے ۷؍ اکتوبر۲۰۲۳ء سے لے کر اب تک ۶۷؍ ہزار  سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا۔ یہ تعداد ایسی ہے جسے غزہ کی وزارت صحت کے علاوہ اقوام متحدہ بھی تسلیم کرتی ہے اور قابل اعتبار قرار دیتی ہے۔ غزہ میں جب جنگ شروع ہوئی تو ان صحافیوں کے پاس کوئی اور چوائس نہیں تھی مگر یہ کہ وہ اس جنگ کو دستاویزی شکل میں مرتب کرنا شروع کریں اور لوگوں کے ناقابل برداشت مصائب اور ناقابل تصور زندگی کو دستاویزی فلم کا حصہ بنا سکیں۔ ٹرانگ کا کہنا ہے میں چاہتا ہوں کہ میں واضح کروں کہ یہ صحافتی اور دستاویزی فلم بنانے کا پروفیشن کیا ہے۔ یہ بنیادی طور پر میدان سے شروع ہوتا ہے اور زمین پر ہونے والے حقائق کو لوگوں کے سامنے لانے کی ایک مرتب شدہ کہانی کا نام دستاویزی فلم ہے۔ جو اے ایف پی کے ڈاکیومنٹری پروڈکشن یونٹ کے ذریعہ تیار کی گئی ہے۔’انسائڈ غزہ‘ کے نام سے بننے والی اس فلم میں تمام تصاویر ایکسکلوزیو ہیں اور پہلی مرتبہ سامنے آرہی ہیں اور ’اے ایف پی‘ کے صحافیوں نے ان تصاویر کی تصدیق کی ہے۔ دستاویزی فلم میں ایسے فلسطینی بچوں کی تصاویر ہیں جو اسرائیلی بمباری سے زخمیہیں یا ایسے فلسطینی بچے جو ملبے کے ڈھیروں کے نیچے بے جان ہیں ۔واضح ہوکہ اسرائیلی فوج نے غیر ملکی صحافیوں کے غزہ میں داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ٹرانگ نے کہاکہ غزہ میں موجود صحافی صحافتی میدان کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ کس طرح ان مصائب میں صحافتی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے کوریج کرنا ہے۔

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK