Updated: November 20, 2025, 11:01 AM IST
| New Delhi
سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ نےمرکزی حکومت کو چار ماہ کے اندر نیشنل ٹربیونل کمیشن کے قیام کی ہدایت دی۔
سپریم کورٹ۔ تصویر:آئی این این
نئی دہلی(ایجنسی): سپریم کورٹ نے بدھ کے روز ٹربیونل ریفارمس ایکٹ،۲۰۲۱ء کو منسوخ کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون سے علاحدہ اختیارات اور عدلیہ کی آزادی کے آئینی اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کے ونود چندرن پر مشتمل بنچ نے مختلف ٹربیونل بنچ میں اراکین اور ماہرین کی تقرریوں کے سلسلے میں سابقہ فیصلوں میں جاری کردہ حتمی ہدایات پر عمل آوری میں بار بار ناکام رہنے پر مرکزی حکومت پر سخت ناراضگی ظاہر کی۔ عدالت عظمی نے کہا کہ متعدد مقدمات میں عدالت کی طرف سے نشان زد کردہ نقائص کو دور کیے بغیر، اس ایکٹ کے ذریعہ محض پہلے مسترد کردہ دفعات کو دوبارہ نافذ کیا گیا ہے۔ عدالت عظمی نے۲۰۲۱ء میں مدراس بار ایسوسی ایشن کی طرف سے دائر چیلنج کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایکٹ مستند عدالتی احکامات کو ’’مقننہ کے ذریعہ پلٹنے‘‘ کے مترادف ہے اور اسے برقرار نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ عدالت نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ایم بی اے سے متعلق سابقہ فیصلوں میں دی گئی ہدایات، جیسے کہ ٹربیونل کے اراکین کیلئے کم از کم ۵؍سال کی مدت اور وکیلوں کی اہلیت کے لیے کم از کم دس سال کے تجربے کی شرط ، اس وقت تک نافذ رہیں گی جب تک کہ پارلیمنٹ عدالتی ہدایات کی تعمیل میں کوئی نیا قانون نہ بنا لے۔ بنچ نے مرکزی حکومت کو چار ماہ کے اندر نیشنل ٹریبیونل کمیشن قائم کرنے کی بھی ہدایت دی۔
عدالت نے مزید واضح کیا کہ۲۰۲۱ء کے ایکٹ سے پہلے ہونے والی تقرریوں پر’ایم بی اے۴‘ اور ’ایم بی اے فائیو‘ کے فیصلوں کا اطلاق ہوگا۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ انکم ٹیکس اپیلیٹ ٹریبونل (آئی ٹی اے ٹی) کے ممبران۶۲؍ سال کی عمر تک سروس میں رہیں گے، جس کے چیئرپرسن۶۵؍ سال تک خدمات انجام دیں گے۔ اہلیتی عمر کے اسی معیار کو ممبران اور کسٹمز، ایکسائز اینڈ سروس ٹیکس اپیلیٹ ٹریبونل(سی ای ایس ٹی اے ٹی) کے صدر کے لیے نافذ کیا جاتا ہے۔
بنچ نے اس بات پر زور دیا کہ۲۰۲۱ء کے ایکٹ کی دفعات یعنی چار سال کی میعاد، کم از کم عمر کی شرط۵۰؍ سال، اور انتخابی کمیٹی کے کام کاج میں تبدیلیاں، عدالتی مینڈیٹ کے خلاف ہیں، اور اس لیے یہ آئینی طور پر ناقابل قبول ہیں۔