Updated: September 03, 2025, 11:22 PM IST
| New Delhi
سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ ’’ ۵؍ سال میں مقدمہ بھی شروع نہیں ہوا ہے لیکن اس نوجوان کو ضمانت نہیں دی جارہی ہے ‘‘،ٹی ایم سی کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا کے مطابق ۵؍ سال کی حراست کے باوجود ضمانت نہ دینا انصاف کا مذاق ہے ‘‘، اب سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑنے کا اعلان
جے این یو کے سابق طلبہ لیڈر عمر خالد کو مقدمہ چلائے بغیر ۵؍ سال سے جیل میں قید رکھا گیا ہے
دہلی ہائی کورٹ نے جے این یو (جواہر لال نہرو یونیورسٹی) کے سابق طلبہ عمر خالد اور شرجیل امام سمیت نو افراد کی ضمانت کی درخواستوں کو گزشتہ روز ایک مرتبہ پھر مسترد کردیا گیا ہے۔ عمر خالد کی یہ چھٹی عرضی تھی جو دہلی ہائی کورٹ سے مسترد ہوئی ہے۔ یہ سبھی افراد۲۰۲۰ء کے شمال مشرقی دہلی فسادات کے سلسلے میں مبینہ سازش کیس میں یو اے پی اے کے تحت ملزم بنائے گئے ہیں۔جن نوجوانوں کی ضمانت کی عرضی مسترد کی گئی ان میںشرجیل امام، عمر خالد، محمد سلیم خان، شفیع الرحمٰن، اطہر خان، میران حیدر، شاداب احمد، خالد سیفی اور گلفشاں فاطمہ شامل ہیں۔جسٹس نوین چائولہ اور جسٹس شالندر کور کی بنچ نے ضمانت کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ سنگین الزامات سے جڑا ہے اس لئے ضمانت نہیں دی جاسکتی ۔کورٹ نے یہ بھی کہا کہ مقدمہ کا شروع نہ ہونا ضمانت کی بنیاد نہیں بن سکتا اور اسے ہر معاملے میں نافذ بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لئے عمر خالد اور دیگر کی ضمانت کی عرضی مسترد کی جارہی ہے۔ کورٹ نے یہ بھی کہا کہ عمر خالد اس معاملے میں کلیدی ملزم ہے اس لئے اسے ضمانت دینے پر بہت غور کرنا ہو گا۔
یہ آرڈر جاری ہوتے ہی ملک کے سینئر وکیل ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے انتہائی سخت ردعمل دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’عمر خالد کو ستمبر۲۰۲۰ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس پرمجرمانہ سازش، ہنگامہ آرائی، غیرقانونی اجتماع یو اے پی اے کے تحت دیگر دفعات عائد کی گئی ہیں۔ گرفتاری کے بعد سے وہ مسلسل جیل میں ہے لیکن یہاں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اس کیس میں اب تک ٹرائل ہی شروع نہیں ہوا ہے تو ضمانت کیوں نہیں دی جارہی ہے۔ اسے جیل ہی میں رکھنے پر اصرار کیوں ہے ؟ اس نوجوان کے ۵؍ سال برباد کردئیے گئے ہیں۔ ‘‘
پرشانت بھوشن نے مزید کہا کہ یہ عمر خالد ہے جو ہمیشہ ملک کے غریب اور پسماندہ طبقات کی بات کرتا تھا۔ اس کی ہر تقریر میں عدم تشدد کا ذکر ہوتا ہے لیکن چو نکہ وہ مسلمان ہے اسی لئے مودی کی پولیس نے اسے قید کر رکھا ہے۔ پانچ برس گزر جانے کے بعد بھی اس کا ٹرائل شروع نہیں ہوا، پھر بھی ہائی کورٹ نے ضمانت نہیں دی۔ یہ کیسا انصاف ہے؟ کیا اس ملک میں ضمانت حاصل کرنا اتنا مشکل ہو گیا ہے ؟ یا اسے مشکل بنایا جارہا ہے ؟
ٹی ایم سی کی رکن پارلیمنٹ اور مودی حکومت کی سب سے بڑی ناقد مہواموئترا نے بھی عمر خالد کو ضمانت نہ ملنے پر سخت ردعمل ظاہر کیا۔ انہوں نے ٹویٹ کیا کہ’’۵؍ سال تک قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد بھی اگر ضمانت نہ ملے تو پھر انصاف پر سوال اٹھنا لازمی ہے۔ ابھی تک تو عمر خالد ، شرجیل امام ، خالد سیفی اور دیگر لوگوں کےمعاملے میں مقدمہ بھی شروع نہیں ہوا ہےتو پھر ضمانت کیوں نہیں دی جارہی ہے ؟ یہ انصاف کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ لگتا ہے کہ اب ہمیں سپریم کورٹ سےہی رجوع کرنا پڑے گا۔ اس کے بغیر شاید ہمیں انصاف نہ ملے۔‘‘
واضح رہے کہ صرف عمر خالد ہی نہیں شرجیل امام ، خالدسیفی ، میران حیدر ، شاداب احمد ، گلفشاں فاطمہ اور دیگر بھی گزشتہ ۵؍ سال سے قید ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی ضمانت نہیں دی گئی ہے۔عمر خالد تو نچلی عدالتوں سے لے کر اعلیٰ عدالت تک ۲۰؍سے زائد مرتبہ ضمانت کی عرضی داخل کرچکے ہیں لیکن انہیں کسی بھی عدالت نے ضمانت نہیں دی۔ یہاں تک کہ وہ سپریم کورٹ بھی گئے تھے لیکن وہاں انہوں نے عرضی داخل کرنے کے بعد اس پر سماعت ہونے سے قبل ہی وہ واپس لے لی اور نچلی عدالت سے رجوع ہوئے لیکن گزشتہ روز انہیں ایک مرتبہ پھر مایوسی ہی ہاتھ لگی ہے۔