Updated: October 26, 2023, 9:16 PM IST
| New York
آج اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے جذباتی تقریر کی اور تمام ممبران سے انصاف کیلئے ووٹ دینے کی اپیل کی، کہا کہ یہ موقع نفرت کو مات دینے کا ہے جبکہ اسرائیلی سفیر گیلاد اِردان دہشت گردی سے نمٹنے کے اپنے موقف پر قائم رہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جنگ فلسطینیوں سے نہیں دہشت گردوں سے ہے۔
فلسطینی سفیر ریاض منصور اور اسرائیلی سفیر گیلاد اِردان۔ تصویر: آئی این این
آج انصاف کا موقع ہے، انتقام کا نہیں: اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر کی جذباتی تقریر
فلسطین کے سفیر ریاض منصور نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جذباتی تقریر کی جس میں انہوں نے کہا: ’’لاکھوں فلسطینیوں کے پاس لوٹنے کیلئے کوئی گھر باقی نہیں رہا ہے۔ ہزاروں لوگوں کیلئے کوئی ایسا خاندان نہیں بچا ہے جو انہیں گلے لگائے۔ ایسا خدا کی مرضی سے نہیں ہوا ہے بلکہ یہاں اس اجلاس میں بیٹھنے اور مختلف ممالک کی نمائندگی کرنے والی حکومتوں کے سبب ہوا ہے۔ (اسرائیل) کا خیال ہے کہ اگر آپ بار بار حماس کہیں تو دنیا کے نقشے سے پورے خاندانوں کو مٹا دینے پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔ کچھ لوگ اسرائیلیوں کیلئے اتنا درد کیوں محسوس کرتے ہیں اور ہم فلسطینیوں کیلئے یہ درد اتنا کم کیوں ہے؟ مسئلہ کیا ہے؟ کیا ہمارا عقیدہ غلط ہے؟ کیا ہماری جلد کا رنگ غلط ہے یا قومیت ؟ہمارے قتل کو روکنے کیلئے انسانوں میں فوری احساس کیوں نہیں ہے؟ کوئی بھی چیز جنگی جرائم کا جواز پیش نہیں کر سکتی۔ہم سب کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہم یہاں اس وقت مل رہے ہیں جب غزہ میں فلسطینی بموں کی زد میں ہیں۔یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ اس وقت بات کررہے ہیں جب خاندانوں کو ختم کیا جارہا ہے، فعال اسپتال کم ہوتے جارہے ہیں، محلے تباہ ہو رہے ہیں، لوگ ایک سے دوسری جگہ بھاگ رہے ہیں مگر ان کیلئے کوئی محفوظ جگہ نہیں مَیں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ اپنے الفاظ کا انتخاب احتیاط سے کریں اور ان ہی کے مطابق عمل کریں۔ ان تمام لوگوں کیلئے جو اس سے بھی بڑی انسانوں کی پیدا کردہ تباہی، یا علاقائی پھیلاؤ کے خلاف متحرک ہیں۔ ہمارے اہداف یہ ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ بموں کا کاروبار بند کرو ورنہ ہر طرف نفرت ہی ہوگی۔ بمباری کو نہ کہئے، زندگیاں بچایئے۔‘‘
فلسطین سفیر نے ارکان پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امن کا انتخاب کریں، ’’یہ منتخب غم و غصہ اشتعال انگیز ہے جسے روکنے کی ضرورت ہے، اور اسے ابھی روکنے کی ضرورت ہے۔ یہ لوگ جنہیں آپ ہر رات اپنے دن کے چند منٹوں کیلئے اپنی اسکرینوں پر اس وقت دیکھتے ہیں جب وہ ذبح کئے جا رہے ہیں، وہ کئی دہائیوں کے فوجی قبضے کے بیچ زندہ رہے ہیں۔ غزہ پٹی میں ۱۶؍ سال کی طویل ناکہ بندی اور پانچ جنگیں۔ انہوں نے زبردست مصائب اور تمام مشکلات کے باوجود اپنی زندگیوں اور اپنے گھروں کو دوبارہ تعمیر کیا ہے۔ مَیں آپ سب سے اپیل کرتا ہوں کہ قتل کو روکنے کیلئے ووٹ دیں۔ ان لوگوں تک پہنچنے کیلئے اور انسانی امداد کیلئے ووٹ دیں۔ ان کی بقا اسی پر منحصر ہے۔ اس پاگل پن کو روکنے کیلئے ووٹ دیں۔ آج آپ کے پاس کچھ کرنے کا موقع ہے، ایک اہم اشارہ دینے کاموقع۔ انصاف کا انتخاب کریں، انتقام کا نہیں۔ قانون کا دفاع کرنے کا انتخاب کریں، اس کی خلاف ورزی کا جواز پیش نہ کریں۔ امن کا انتخاب کریں، مزید جنگوں کا نہیں۔ متعدد دہائیوں میں دیکھے گئے بدترین دوہرے معیارات کے تقریباً تین ہفتوں کے خاتمے کیلئے ووٹ دیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: آئندہ ۲۴؍ گھنٹے انتہائی نازک ہیں کیونکہ ایندھن ختم ہورہا ہے: اقوام متحدہ
اسرائیل کی جنگ فلسطینیوں سے نہیں دہشت گردوں سے ہے: اسرائیلی سفیر
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گیلاد اِردان نے سلامتی کونسل کے ارکان کو بتایا کہ ’’غزہ پر جنگ کا فلسطینیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ یہ سب ۷؍ اکتوبر کو ہوئے حماس کے حملے کے بارے میں ہے۔ ہم نے صرف جوابی کارروائی کی ہے۔ حماس کے وحشی دہشت گردوں نے سمندر، زمین اور فضا سے اسرائیل پر حملہ کیا۔ وہ ایک مقصد کے ساتھ آئے تھے: وحشیانہ طور پر ہر جاندار کو قتل کرنے کیلئے۔ حماس کے نازی قاتل ایک فہرست کے ساتھ گھر گھر گئے۔ یہ – ایک مکمل منصوبہ بند، جان بوجھ کر، پہلے سے سوچا گیا حملہ تھا۔ بہت سے لوگ پوچھ رہے ہوں گے کہ انہوں نے اپنے افسوسناک تشدد کو کیوں فلمایا۔ ٹھیک ہے، میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کیوں۔ انہوں نے اسے اسرائیلی عوام کو خوفزدہ کرنے کیلئے فلمایا تاکہ یہ ویڈیوز جاری کی جائیں اور اسرائیلی شہریوں کے دلوں میں خوف پیدا کیا جا سکے۔ دہشت گرد یہی کرتے ہیں ۔ وہ دہشت گردی کرتے ہیں۔‘‘
سفیر نے کہا کہ اقوام متحدہ کے ہنگامی اجلاس کا امن سے کوئی تعلق نہیں ہے، ’’ہر رکن ریاست جو اس بات پر قائل ہے کہ ہم یہاں مشرق وسطیٰ میں تنازعات کے ایک اور دور پر بات چیت کرنے آئے ہیں ، اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ایک اور تنازع، بالکل غلط ہے۔۷؍ اکتوبر کے قتل عام اور اس کے نتیجے میں فلسطینیوں کا قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کچھ بھی نہیں۔اس کا اسرائیل فلسطین تنازع یا فلسطین کے سوال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ فلسطینیوں کے ساتھ جنگ نہیں ہے۔ اسرائیل نسل کشی کرنے والی جہادی دہشت گرد تنظیم حماس کے ساتھ جنگ میں ہے۔ یہ جدید دور کے نازیوں کے خلاف اسرائیل کی قانون کی پاسداری کرنے والی جمہوریت ہے۔‘‘