فلسطینی سفیر نے اسرائیل پر انسانی امداد روکنے، حملوں کو دوبارہ شروع کرنے اور ٹرمپ کے امن منصوبے میں متفقہ ”یلو لائن“ سے آگے بڑھنے کی کوششوں کے ذریعے جنگ بندی کو ختم کرنے کا الزام لگایا۔
EPAPER
Updated: November 25, 2025, 10:02 PM IST | New York
فلسطینی سفیر نے اسرائیل پر انسانی امداد روکنے، حملوں کو دوبارہ شروع کرنے اور ٹرمپ کے امن منصوبے میں متفقہ ”یلو لائن“ سے آگے بڑھنے کی کوششوں کے ذریعے جنگ بندی کو ختم کرنے کا الزام لگایا۔
اقوامِ متحدہ میں فلسطین کے سفیر ریاض منصور نے پیر کو خبردار کیا کہ جنگ بندی معاہدے کے نافذ العمل ہونے کے باوجود غزہ میں اسرائیلی کارروائیاں جاری ہیں جن میں فلسطینی شہری مارے جارہے ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ معاہدے پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
منصور نے کہا کہ فلسطینیوں نے ”ان کے خلاف خوفناک جنگ کے ختم ہونے کا شدت سے انتظار کیا تھا،“ لیکن زمینی حالات سے صاف ظاہر ہے کہ اسرائیلی کارروائیاں ابھی بھی جاری ہیں اور جنگ بندی کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کونسل کو بتایا کہ ”فلسطینی اب بھی مارے جا رہے ہیں اور معذور ہو رہے ہیں، جبکہ انہیں محدود انسانی امداد دی جارہی ہے اور علاقے کی تعمیر نو میں تاخیر ہو رہی ہے۔“
منصور نے مزید بتایا کہ ۱۰ اکتوبر کو جنگ بندی شروع ہونے کے بعد سے ایک ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔ فلسطینی سفیر کے مطابق، ”ہر دن، دو فلسطینی بچے اسرائیل کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں۔ اس کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔“ انہوں نے اسرائیل پر انسانی امداد روکنے، حملوں کو دوبارہ شروع کرنے اور ٹرمپ کے ۲۰ نکاتی امن منصوبے میں متفقہ ”یلو لائن“ سے آگے بڑھنے کی کوششوں کے ذریعے جنگ بندی کو ختم کرنے کا الزام لگایا۔
منصور نے جنگ بندی کو مستقل کرنے اور غزہ سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلاء کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ”غزہ میں کوئی قبضہ، کوئی الحاق، کوئی تقسیم نہیں ہونی چاہئے۔ فلسطین کی آزادی ہی امن کا واحد راستہ ہے۔“
یہ بھی پڑھئے: سوڈان: نیم فوجی دستے کا تین ماہ کی انسانی ہمدردی کی جنگ بندی کا اعلان
اسرائیل طے شدہ امدادی ٹرکوں کا صرف ایک تہائی حصہ اندر جانے دے رہا ہے: غزہ کے حکام
غزہ کے سرکاری میڈیا آفس نے پیر کو بیان دیا کہ اسرائیل روزانہ ۲۰۰ سے بھی کم امدادی ٹرکوں کو غزہ پٹی میں داخل ہونے کی اجازت دے رہا ہے۔ واضح رہے کہ جنگ بندی معاہدے کے تحت متفقہ طور پر روزانہ ۶۰۰ ٹرکوں پر مشتمل انسانی امداد کے داخلے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود، غزہ کے شہریوں کو ملنے والی موجودہ امداد، معاہدے میں طے پائی مقدار کے ایک تہائی سے بھی کم ہے۔
غزہ کے حکام نے بتایا کہ اسرائیل ”جان بوجھ کر بھوک کا انتظام کر رہا ہے۔“ انہوں نے خبردار کیا کہ غزہ کی ۹۰ فیصد سے زائد آبادی اب غذائی قلت سے شدید متاثر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل ملبے سے لاشوں کو نکالنے کیلئے درکار بھاری ساز و سامان کو غزہ میں داخل ہونے سے روک رہا ہے۔ واضح رہے کہ مقامی حکام کے مطابق، ۱۰ اکتوبر سے جنگ بندی کے باوجود کم از کم ۳۴۲ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔