جنگ بندی کے بعد سے روزانہ اوسطاً ۵۶۰؍ ٹرک غزہ میں داخل ہو رہے ہیں لیکن یہ تعداد بہت تھوڑی ہے، تباہی کے سبب اہم سڑکیں بند ہیں جو دقت پید ا کر رہی ہیں ۔
EPAPER
Updated: October 19, 2025, 10:22 AM IST | New York
جنگ بندی کے بعد سے روزانہ اوسطاً ۵۶۰؍ ٹرک غزہ میں داخل ہو رہے ہیں لیکن یہ تعداد بہت تھوڑی ہے، تباہی کے سبب اہم سڑکیں بند ہیں جو دقت پید ا کر رہی ہیں ۔
قوامِ متحدہ کے مطابق شمالی غزہ کے قحط زدہ علاقوں تک امدادی قافلوں کی رسائی انتہائی مشکل ہو گئی ہے، کیونکہ سڑکوں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور اسرائیل اور حماس کے درمیان فائر بندی کے باوجود شمال کی اہم امدادی گزرگاہیں اب بھی بند ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام عالمی ادارۂ خوراک نے کہا ہے کہ دو سال جاری رہنے والی جنگ کی امریکی ثالثی میں خاتمے کے بعد روزانہ اوسطاً ۵۶۰؍ ٹن غذائی امداد غزہ میں داخل ہو رہی ہے، تاہم یہ مقدار اب بھی علاقے کی ضروریات کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
غزہ شہر کے بعض حصوں میں قحط کے پھیلاؤ کے پیشِ نظر اقوامِ متحدہ کے نائب سیکریٹری جنرل برائے انسانی امور اور ہنگامی امداد کے کوآرڈی نیٹر ٹام فلیچر نے اس ہفتے کہا کہ غذائی قلت، بے گھر ہونے اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی کے اثرات کم کرنے کیلئے ہر ہفتے ہزاروں امدادی ٹرکوں کا غزہ میں داخل ہونا ضروری ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ایک ترجمان کے مطابق ٹام فلیچر آج غزہ پہنچے، جہاں انہوں نے انسانی امداد کے کارکنوں اور اقوامِ متحدہ کی مختلف ایجنسیوں کے نمائندوں سے ملاقات کی۔ فلیچر نے ’ ایکس‘ (سابق ٹوئٹر) پر لکھا: میں اس وقت غزہ میں موجود ہوں، جہاں میں اپنی ٹیموں کی مدد کر رہا ہوں جو زندگی بچانے والے اقدامات کے دائرے کو وسیع کرنے کیلئے ۶۰؍روزہ منصوبے پر عمل کر رہی ہیں۔ ہمارے سامنے درپیش چیلنج بے حد بڑے ہیں، لیکن ہم پُرعزم ہیں کہ صدر ٹرمپ کے امن معاہدے سے پیدا ہونے والے انسانی امداد کے مواقع کی بنیاد پر امداد ضرورت مندوں تک ضرور پہنچائیں گے۔ عالمی ادارۂ خوراک کی ترجمان عبیر عطیفہ نے جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:اگرچہ امداد کی مقدار اب بھی ضرورت سے کم ہے، لیکن ہم اس ہدف کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ فائر بندی نے ایک مختصر موقع فراہم کیا ہے، اور عالمی ادارۂ خوراک تیزی سے اقدامات کر رہا ہے تاکہ غذائی امداد میں اضافہ کیا جا سکے۔ ادارے نے بتایا کہ غزہ شہر میں امداد کی تقسیم کا عمل تاحال شروع نہیں ہو سکا ہے، کیونکہ اسرائیل اور شمالی غزہ کے درمیان واقع زیکيم اور ایرز (بیت حانون) کی سرحدی گزرگاہیں اب بھی بند ہیں ، یہ وہ علاقے ہیں جہاں انسانی بحران سب سے زیادہ سنگین ہے۔ عبیر عطیفہ نے مزید کہا’’غزہ شہر اور شمالی علاقے تک رسائی ہمارے لئےایک بہت بڑا چیلنج ہے، انہوں نے بتایا کہ آٹے اور تیار غذائی پیکیجوں پر مشتمل امدادی قافلے جنوبی غزہ کی تباہ شدہ یا بند سڑکوں کے باعث شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا’’یہ نہایت ضروری ہے کہ شمالی علاقے میں راستے کھولے جائیں، جہاں قحط تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اگر اس قحط کے پھیلاؤ کو روکنا ہے، تو ان راستوں کا کھلنا انتہائی اہم ہے۔ طبی سہولیات تک محدود رسائیعالمی فلاحی تنظیم ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے بتایا کہ متعدد امدادی ادارے ابھی تک اپنے مکمل عملے کے ساتھ شمالی غزہ واپس نہیں جا سکے ہیں، جہاں وہ سخت مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس صورتحال کے باعث اسپتالوں کو کام کرنے میں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں، جس کے نتیجے میں غزہ کے متعدد شہری باقاعدہ طبی سہولیات سے محروم ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کے غزہ میں ہنگامی امور کے کو آر ڈی نیٹر جیکب گرانجر نے ایک خاتون کا واقعہ بیان کیا، جو غزہ شہر سے تعلق رکھتی ہیں اور جنگ کے دوران شَیل لگنےسے زخمی ہوئیں۔ وہ اس ماہ کے اوائل میں پانچ دن تک کسی طبی مرکز تک نہیں پہنچ سکیں تاکہ اپنے زخموں کی پٹیاں تبدیل کروا سکیں۔ گرانجر کے مطابق، جب وہ خاتون بالآخر ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کی ایک نرس تک پہنچیں اور اُس نے پٹی کھولی تو زخم میں کیڑے اور لاروا پیدا ہو چکے تھے۔ اگرچہ شمالی علاقے جو اسرائیل اور حماس کے درمیان سب سے شدید اور تباہ کن جھڑپوں کا مرکز رہے ہیں، میں تھوڑی مقدار میں غذائی امداد پہنچ سکی ہے تاہم امدادی قافلے اب بھی وہاں اور دیگر علاقوں میں بڑی مقدار میں خوراک پہنچانے سے قاصر ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے انسانی امور کے دفترکے مطابق ۲؍ دن قبل تقریباً ۹۵۰؍ٹرک جنوبی اور وسطی غزہ میں داخل ہوئے۔ یہ امدادی قافلے اسرائیل کے ساتھ واقع کرم ابو سالم اور کیسوفیم گزرگاہوں کے ذریعے پہنچے۔ یہ اعداد و شمار اسرائیلی فوج کےغزہ میں امدادکی ترسیل کی ذمہ دار یونٹ کے ہیں۔ انسانی امور کے رابطہ دفتر نے مزید بتایا کہ بدھ کے روز تقریباً ۷۱۵؍ ٹرک غزہ میں داخل ہوئے تھے، جن میں سے ۱۶؍ٹرک ایندھن اور گیس سے بھرے ہوئے تھے۔